ملتان ٹیسٹ میچ پہلی اننگز میں ابرار احمد نے 7 کھلاڑی آئوٹ کئے
ملتان ٹیسٹ کا نتیجہ کیا نکلتا ہے‘ یہ بھی جلد پتہ چل جائے گا۔ پہلی اننگز میں تو انگلینڈ کو 79 رنز کی برتری حاصل ہو گئی ہے۔ ہمارے صرف دو کھلاڑی ہی چل سکے‘ باقی سب ’’تو چل میں آیا‘‘ کے مصداق بس آئے اور گئے۔ انگلینڈ کی پہلی اننگز 281 کے جواب میں پاکستانی ٹیم نے خدا خدا کرکے 202 رنز بنائے۔ آگے دعاہے اللہ خیر کرے گا۔ ہم پاکستانی معاملہ ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر یہی مشہور و معروف دعا کرتے ہیں۔ ملتان میچ میں البتہ پاکستانی ٹیم کو ابراراحمد کی شکل میں ایک نیا ہیرا ہاتھ لگا ہے۔ خدا کرے یہ تادیر پاکستانی ٹیم میں اپنی چمک دمک سے دنیائے کرکٹ کے کھلاڑیوں اور شائقین کی آنکھوں میں خیرہ کرتا رہے۔ ملتان ٹیسٹ میں اس جادوگر سپنر نے جس طرح 7 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا‘ ان کا یہ کارنامہ لائق تحسین ہے۔ خودانگلینڈ کے کھلاڑی بھی اس نوجوان کی پھینکی گیندوں کو سمجھ نہ سکے اور آئوٹ ہونے پر حیران نظر آئے۔ بالفاظ دیگر واقعی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملتان ٹیسٹ کی پہلی اننگز ابراراحمد کے نام رہی جس نے انگلش کھلاڑیوں کو تگنی کا ناچ نچایا اور پاکستانی ٹیم میں اپنی جگہ مضبوط بنا لی۔ اب یہ پی سی بی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ہیرے کو تراش کر مزید نکھاریں۔ پسند ناپسند اور انا کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ یادش بخیر گزشتہ ہفتے ہی پاکستان نے دیگر کئی عالمی کھیلوں میں بھی شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ذرا وزارت کھیل اس طرف بھی نظر ڈالے۔ وہ بھی پاکستان کے چمکتے ستارے ہیں‘ کیا ہوا جو وہ کرکٹر نہیں۔
٭٭……٭٭
سعودی عرب برج الخلیفہ سے دگنی بلند عمارت تعمیر کرے گا
بے شک اس وقت عرب ممالک میں نت نئے ریکارڈ بنانے کی خاص طورپر عمارتیں اور شہر تعمیر کی جو دوڑ لگی ہے‘ اس سے مشرق وسطیٰ اب لگتا ہی نہیں کہ 50 برس قبل کے بدوئوں کا پسماندہ علاقہ رہا ہے۔ قطر‘ بحرین‘ کویت‘ عرب امارات اور سعودی عرب دنیا کے بہترین رہائشی اور کمرشل علاقے رکھنے والے ممالک میں شامل ہو چکے ہیں۔ بلیک گولڈ یعنی تیل نے ان ملکوں کی کایا پلٹ دی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے تو عالیشان اور بلندو بالا عمارات کی تعمیر میں بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کو شرما دیا ہے۔ اب اس دوڑ میں تمام عرب ممالک کی کوشش ہے آگے سے آگے نکل کر بہتر سے بہتر کام کریں۔ وجہ یہی ہے کہ دنیا بھر سے سیاح یہاں آئیں‘ یہاںکی سیاحت بڑھے۔ یہاں تجارتی اور کاروباری عالمی کمپنیوں کے دفاتر بنیں۔ ان ممالک میں ترقی کی راہیں کھلیں۔ اب سعودی عرب نے گزشتہ ماہ ایک جدید ترین ٹیکنالوجی کی انتہائی حدود کو چھوتے ہوئے شہر کی بنیاد رکھی ہے جس پر کھربوں ڈالر خرچ آئیں گے۔ یہاں کی زندگی اور تعمیرات اگلی صدی کے دور والی ہونگی۔ اب سعودی عرب نے برج الخلیفہ سے ڈبل بلند عمارت تعمیر کرنے کا اعلان بھی کیا ہے جس پر ظاہر ہے اربوں ڈالر خرچ ہونگے۔ان تعمیرات سے ترقی کی راہیں مزید کشادہ اور بہتر ہو سکتی ہیں مگر اس کیساتھ ساتھ اگر ہم مسلمانوں نے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں سائنس‘ ٹیکنالوجی اور تعلیم و تحقیق کے میدان میں بھی ان کا ہمسر ہونا ہوگا۔ اس کیلئے ہمیں مسلم ممالک میں اعلیٰ تعلیمی و سائنسی تحقیقی ادارے و مراکز بھی بنانا ہونگے تاکہ مسلم قوم بھی دنیا کے ان میدانوں میں بھی آگے بڑھیں جن میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
٭٭……٭٭
کراچی میں دولہا کا دلہن کیلئے گدھے کے بچے کا تحفہ
صرف یہی نہیں بلکہ دولہانے اس گدھے کے بچے کی ماں کو بھی ساتھ لایا ہے تاکہ وہ بچہ اپنی ماں کی محبت سے محروم نہ ہو۔ ماں کی محبت انسان ہو یا جانور‘ سب میں یکساں ہوتی ہے۔ اس پر دولہا میاں کو شاباش ملنی چاہئے کہ انہوں نے گدھے کو اس کی ماں سے دور نہیں کیا۔ اب اس پیار بھرے تحفے کو دیکھ کر تو شادی میں شریک مہمانوں کے ہوش ہی نہیں رنگ بھی اڑ گئے ہونگے۔ جب انہیں پتہ چلا ہوگا کہ دولہا ازلان شاہ جو یوٹیوبر ہیں اور جانوروں سے پیار کرتے ہیںنے اپنی دلہن وریشہ کو یہ انوکھا تحفہ دیا ہے۔ اس پر وہ تصویر میں جس طرح اس گدھے کے بچے کو پیار کر رہے ہیں‘ وہ بھی حیرت کی بات ہے۔ شاید دل ہی دل میں دلہن اس پیار کے تحفے پر حیران بھی ہونگی کیونکہ وہ دانتوں کی ڈاکٹر ہیں۔گدھے کے بچے ویسے پیارے ہوتے ہیں مگر جب بڑے ہوکر گدھے بن جاتے ہیں تویہ بے چارے ریڑھیوں کے آگے لگے نظر آتے ہیں یا کمر پر بوجھ لادے۔ دروغ برگردن راوی دونوں میاں بیوی جانوروں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اب گدھے کا بچہ تو وریشہ رکھ لیں گی‘ بچے کی ماں کا کیا بنے گا۔ اس کو کون پالے گا۔ یہ تو شادی کے ساتھ ہی دولہا میاں کے اخراجات میں اضافے کی بات ہوگی ویسے بھی۔ گدھا پالنا آسان نہیں رہا۔ اس کیلئے گھاس‘ دانہ اور اس کی صفائی ستھرائی بہرحال ایک سخت عمل ہے۔ کہانی اسی پر ختم نہیں ہوتی بعدازاں دولہا اور دلہن نے ہاتھی کے ساتھ جاکر اپنا فوٹو شوٹ بھی کرلیا ہے یہ بھی نئی بات ہے۔
٭٭……٭٭
نجی سکول مالکان کا سموگ کی وجہ سے سکول بند کرنے سے انکار
گزشتہ روز شہر لاہور میں بیشتر نجی سکول حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کھلے رہے۔ ہوس زر کا شکار ان سکول مالکان کو ذرا بھر بھی معصوم بچوں کا خیال نہیں آتا کہ وہ اس خراب موسم میں جب اچھے بھلے جوان متاثر ہورہے ہیں‘ کس طرح اس سموگ کا مقابلہ کریں گے۔ انہیں بس بچوں کے والدین سے بھاری بھرکم فیسیں بٹورنے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ رہی تعلیم تو وہ سب جانتے ہیں کہ ان میٹرک یا ایف اے پاس سکول مالکان سے اپنی طرح کے معمولی تعلیم یافتہ سٹاف بھرتی کرکے کونسی تعلیمی خدمت سرانجام دینی ہوتی ہے۔ تین‘ پانچ یا دس مرلے کی عمارت میں قائم ان گھروں کو سکول کہنا ہی اول سکول کی توہین ہے۔ نہ گرائونڈ نہ کھلے ہوادار کمرے‘ نہ برآمدے‘ نہ ڈھنگ کا آفس بس سکول کا بورڈ لگا کریہ لوگ پاکستان کے سب سے بڑے منافع بخش کاروبار کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس میں قصور عوام کا بھی ہے۔ وہ کیوں ان ڈربہ نما سکولوں میں بچے داخل کراتے ہیں اوپر سے زیادہ فیسیں بھی ادا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیںیہ سکول بچوں کو لائق فائق بنا دے گا۔ کاش ہماری حکومتیں سرکاری سکولوں کو پہلے کی طرح مرکز علم بنا دیں۔ سٹاف اور عمارتوں کو بچوں کی تعلیم پر لگا دیں تو ان نجی سکولوں کی آمدنی آدھے سے بھی کم ہو جائے گی۔ سرکاری تعلیمی ادارے حکومتی بے حسی اور اساتذہ کی بے توجہی کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں۔ ان کی ساکھ بچا کر ہی تعلیم کا فروغ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اب یہ حکومت کا کام ہے کہ اس کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے سکولوں کے لائسنس ختم کرے یا انہیں بھاری جرمانہ ادا کریں۔