حریت رہنمائوں کی اب  اوآئی سی سے امیدیں

کل جماعتی حریت کانفرنس نے اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طلحٰہ پر زور دیا ہے کہ وہ تمام رکن ممالک کی مشاورت سے بھارت اور اسکے غیرقانونی زیرقبضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کیلئے خطرناک بھارتی منصوبے پر اس کا سیاسی اور معاشی بائیکاٹ کرنے کی ایک مشترکہ پالیسی وضع کریں۔ 
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی مسلمان دشمن کارروائیاں جس نہج پر پہنچ چکی ہیں‘ ضروری ہو گیا ہے کہ اسے نکیل ڈالنے کیلئے عالمی سطح پر مؤثر اقدامات کئے جائیں۔ 9 لاکھ سے زائد سفاک بھارتی سکیورٹی فورسز نے وادی میں ظلم و ستم کا جو بازار پچھلی پون صدی سے گرم کر رکھا ہے‘ اس پر عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کی طرف سے اب تک صرف مذمتی بیانات پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے۔ 5 اگست 2019ء کو بھارت نے جب اپنے آئین کی دفعات 370 اور 35۔اے کو حذف کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی سٹیٹ یونین میں ضم کیا تو اقوام متحدہ نے گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کیلئے یکے بعد دیگرے تین ہنگامی اجلاس طلب کئے جس میں بھارتی اقدام کی سختی سے مذمت تو کی گئی لیکن عملی طور پر اس پر نہ دبائو ڈالا گیا اور نہ اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں جس سے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور اس نے وادی سمیت بھارت میں بھی مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا۔ گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں بھارتی مظالم کیخلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔اس تناظر میں حریت کانفرنس کے رہنمائوں نے عالمی اداروں اور اقوام متحدہ سے مایوس ہو کر ہی اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کا سیاسی اور معاشی بائیکاٹ کرنے کیلئے مشترکہ پالیسی وضع کرے۔ اب یہ او آئی سی کے رکن ممالک کی اولین ذمہ داری ہے کہ کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کریں اور بھارت کا مکمل بائیکاٹ کرکے اسے اسی طرح راہ راست پر لانے کی کوشش کریں جس طرح انکی طرف سے ملعونہ نپورشرما کی بھارتی عدالت سے رہائی کے فیصلہ پر اس کا بائیکاٹ کیا گیا تو بھارت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ بھارت تیل کیلئے زیادہ تر اسلامی ممالک پر انحصار کرتا ہے‘ اگر یہ ممالک اسے صرف تیل کی سپلائی بند کردیں تو بھی بھارت مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور ہو جائیگا۔ 

ای پیپر دی نیشن