اسمبلیوں کی تحلیل پر عمران خان کی لاحاصل سیاست 

پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ تمام مسائل اور بحرانوں کا حل انتخابات میں مضمر ہے۔ 30 دسمبر تک اسمبلیاں ہر صورت تحلیل کر دی جائیں گی۔ موجودہ کرپٹ نظام کا مزید حصہ نہیں رہ سکتے۔ گزشتہ روز لاہور میں متحدہ علماء بورڈ پنجاب کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا سے ملک کے سیاسی امور پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ امپورٹڈ حکومت نے ملک کو آئی سی یو میں پہنچا دیا ہے۔ فوری انتخابات ہی ریسکیو کر سکتے ہیں۔ انکے بقول قوم خوشحالی چاہتی ہے تو وہ کرپٹ حکمرانوں کیخلاف چلنے والی آزادی کی تحریک میں ہمارا ساتھ دے۔ کرپٹ افراد نے سیاست‘ جمہوریت اور ریاست پر قبضہ کر رکھا ہے۔ عمران خان نے پی ٹی آئی یوتھ ونگ کے عہدیداروں سے ملاقات کے دوران پی ٹی آئی ارکان کو اپنے حلقوں میں مہنگائی کیخلاف احتجاجی ریلیوں کے انعقاد کی ہدایت کی۔ 
دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ وہ عمران خان کو چیلنج کرتے ہیں‘ وہ اگر مگر چھوڑیں اور اسمبلی توڑ دیں‘ ہم الیکشن کیلئے تیار ہیں۔ پنجاب کا الیکشن کرائیں گے اور عمران خان کو عبرتناک شکست دینگے۔ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹیریٹ ماڈل ٹائون لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگلے انتخابات کا فیصلہ بھی پنجاب کے الیکشن میں ہو جائیگا۔ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان چہروں کو پہچانیں۔ عمران خان نے اس ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے‘ اس کو پہچانیں ورنہ یہ ملک کو بڑے حادثے سے دوچار کردیگا۔ انہوں نے کہا کہ چارٹر آف اکانومی ضرور ہونا چاہیے‘ شہبازشریف پاکستان کیلئے سب کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔ انکے بقول ملک کی معاشی صورتحال کوئی ایک جماعت ٹھیک نہیں کر سکتی۔ چارٹر آف اکانومی کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں ٹوٹتی ہیں تو 90 روز کے اندر انکے انتخابات ہو جائیں گے۔ 
یہ طرفہ تماشا ہے کہ عوام کے روٹی روزگار اور مہنگائی سے متعلق مسائل گھمبیر سے گھمبیر تر ہو رہے ہیں۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام سسٹم کی بقاء کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے مگر ہمارے قومی سیاسی قائدین قومی معیشت کو پائوں پر کھڑا کرنے اور قوم کو بے انتہاء مسائل کے دلدل سے نکالنے کی کوئی تدبیر کرنے کے بجائے بدستور مفاداتی سیاست اور بلیم گیم میں مصروف ہیں جس سے سیاسی اور اقتصادی استحکام کا خواب تو شاید ہی شرمندۂ تعبیر ہو پائے‘ بیرونی دنیا میں ملک کا تشخص ضرور خراب ہوگا اور سسٹم کے ڈی ٹریک ہونے کے امکانات ضرور بڑھیں گے۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے بالخصوص 2018ء کے انتخابات کی بنیاد پر اقتدار میں آنے کے بعد اپنے مخالف سیاست دانوں اور سابق حکمرانوں کے ساتھ افہام و تفہیم اور شائستگی‘ رواداری کے راستے پر چلنے کے بجائے دشنام طرازی اور چور ڈاکو کی تکرار کے ساتھ انکی سیاسی ساکھ اور عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس مقصد کیلئے پی ٹی آئی حکومت نے نیب کو متحرک کیا اور عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو عامیانہ الزام تراشی کے ذریعے دیوار سے لگانے کی کوشش کی جبکہ پی ٹی آئی قیادت کے دعوئوں اور وعدوں کے برعکس انکے دوراقتدار میں مہنگائی‘ بے روزگاری اور توانائی کے سنگین بحران کے ہاتھوں عوام کا جینا دوبھر ہو گیا اور وہ راندۂ درگاہ ہو کر رہ گئے جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آئوٹ پیکیج کیلئے اسکی تمام ناروا شرائط بھی من و عن قبول کرلی گئیں نتیجتاً پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس‘ ادویات کے نرخوں میں بتدریج اضافہ ہوتے ہوتے عوام کی پہنچ سے دور ہو گیا۔ اس سے عوام میں اضطراب بڑھا تو اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہو کر وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی جو کامیابی پر منتج ہو ئی اور عمران خان کو اقتدار سے فارغ ہونا پڑا مگر عمران خان نے اپنی غلطیوں کے ادراک کے بجائے بیرونی سازش والا بیانیہ تیار کرکے اتحادی جماعتوں کی حکومت اور ریاستی اداروں بشمول افواج پاکستان کیخلاف خود بھی پے در پے جلسوں کے ذریعے اودھم مچانا شروع کر دیا اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو بھی اس کیلئے متحرک کر دیا۔ اس سے لامحالہ انہیں عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی اور اقتدار سے محرومی کے بعد ہونیوالے ضمنی انتخابات کے نتائج انکے حق میں آئے جسے اپنی بے انتہاء مقبولیت کا گراف سمجھتے ہوئے انہوں نے بلیم گیم کی سیاست میں مزید شدت پیدا کر دی اور براہ راست ملک کی عسکری قیادتوں کو نام لے کر چیلنج کرنا شروع کر دیا تاہم میرٹ پر نئے آرمی چیف کے تقرر سے انکی اودھم مچانے والی سیاست کے غبارے سے بھی ہوا نکلنا شروع ہو گئی۔ انہوں نے حقیقی آزادی کے نام پر شروع کئے گئے لانگ مارچ کو بھی آرمی چیف کے تقرر کی تاریخ تک بے جا طول دیا اور اس دوران وزیرآباد میں ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا جسے انہوں نے عوام کی ہمدردیوں کی صورت میں اپنے حق میں کیش کرانے کیلئے وزیراعظم‘ وفاقی وزیر داخلہ اور فوج کے ایک اعلیٰ افسر کو ایف آئی آر میں نامزد کرانے کی کوشش کی۔ اس پر  انکے حلیف وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی بھی گومگو کا شکار ہوئے اور پھر انہوں نے اور انکے صاحبزادے مونس الٰہی نے دوٹوک الفاظ میں ملک کی سابق اور موجودہ عسکری قیادتوں کی حمایت کرکے ان کیخلاف عمران خان کی بلیم گیم کی سیاست کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ 
عمران خان نے اپنے لانگ مارچ کے اختتام پر اسمبلیوں سے استعفے دینے اور پھر پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا جس کی بنیاد پر وہ فوری عام انتخابات کا تقاضا پورا کرانا چاہتے تھے جبکہ عام انتخابات کے معاملہ میں حکومت نے یہ ٹھوس موقف اختیار کیا کہ یہ اسمبلیوں کی مقررہ آئینی میعاد پوری ہونے کے بعد ہی منعقد ہونگے۔ اسی طرح پاکستان الیکشن کمیشن نے بھی باور کرادیا کہ نئی حلقہ بندیوں کیلئے چھ ماہ کا وقت درکار ہے تاہم کسی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کی نوبت آئی تو اس کیلئے الیکشن کمیشن تیار ہے۔ اگرچہ پنجاب اور خیبر پی کے کے وزراء اعلیٰ کی جانب سے عمران خان کو تواتر کے ساتھ یقین دلایا گیاہے کہ وہ انکے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فی الفور اسمبلی توڑ دینگے تاہم اس حوالے سے زمینی حقائق اب کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی اپنے ایک انٹرویو میں واضح عندیہ دے چکے ہیں کہ آئندہ سال مارچ سے پہلے انتخابات کے انعقاد کا کوئی امکان نہیں جبکہ ترجمان کے پی کے حکومت بیرسٹر سیف نے گزشتہ روز یہ انکشاف کیا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے معاملہ میں کچھ وزراء اور ارکان میں اختلافات ہیں۔ 
یہ امر واقعہ ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد تک پنجاب اور خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومتیں برقرار رہیں گی تو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ اس سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے گی۔ اسی بنیاد پر اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملہ میں پی ٹی آئی کے اندر بھی تحفظات پائے جاتے ہیں جبکہ عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلہ پر ہی ڈٹے ہوئے ہیں جس میں انکی ناکامی کے امکانات زیادہ ہیں۔ 
اس تناظر میں دانشمندی کا یہی تقاضا ہے کہ عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرانے کے بجائے پارلیمنٹ میں رہ کر عوام کے روٹی روزگار کے مسائل کے حل کیلئے حکومت پر دبائو بڑھائیں اور بلیم گیم کی سیاست سے اب رجوع کرلیں۔ اودھم مچانے والی سیاست سے اب یقیناً عوام بھی عاجز آچکے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن