اس وقت پاکستان کی معیشت سنگین ترین بحران سے گزر رہی ہے، حکومت کی معاشی ٹیم ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لیے نہ صرف ہاتھ پائوں مار رہی ہے بلکہ ساتھ ہی بلند و بانگ دعوے بھی کر رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط آنے سے معیشت قدرے سنبھل بھی جائیگی۔ دوسری طرف، ایشین انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک سے 50 کروڑ ڈالر کا قرضہ ملنے پر معاشی ٹیم کی خوشی دیدنی ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ قرضہ قرضہ ہی ہوتا ہے اور یہ قرضہ ملک کے مجموعی قرضوں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ یہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کے قرضے کی قسط دینے کے لیے نہ صرف ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے بلکہ سخت شرائط کا پلندہ بھی تھما دیا ہے جس پر عمل درآمد کرنے سے ملکی معیشت کا مزید کباڑا ہو جائے گا کیونکہ قرضوں کے سہارے پر چلنے والی معیشت کبھی بھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔
افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ سیلاب کی بدترین تباہ کاریوں کے باوجود ہمارے سیاستدانوں کے درمیان سیاسی جنگ عروج پر رہی۔ کسی کو بھی متاثرین سیلاب کی امداد و بحالی کا خیال نہیں آیا۔ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں پاکستانی عوام اور سماجی بہبود کی غیر سرکاری تنظیمیں جنہوں نے سیلاب زدگان کی مدد کیلئے دن رات ایک کر دیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو عوام کے مسائل کا رتی بھر بھی احساس نہیں، وہ تو اقتدار کی جنگ میں ایک دوسرے کو نیچے گرانے کے چکروں میں الجھے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے جولائی 2018 ء میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے حکومت کو ’میثاقِ معیشت‘ کرنے کی تجویز دی تھی۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت کی وجہ سے آج ’میثاقِ معیشت‘ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ کیا وزیراعظم پاکستان اب ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کیلئے اپوزیشن کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے؟
حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسانے کی بجائے میثاقِ معیشت بھی کریں اور میثاقِ جمہوریت بھی۔ اگر یہ انہونی ہو جائے تو ملک میں نہ صرف سیاسی اور معاشی استحکام آئیگا بلکہ پاکستان کا ہر شعبہ ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائیگا۔ اگرچہ اس وقت حکومت معاشی ترقی کے بلند و بانگ دعوے کر رہی ہے لیکن حقیقتاً معاشی اشاریے آنیوالے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں اور حکومت کی اپنی وزارت خزانہ کی رپورٹیں بھی اس کی تصدیق کر رہی ہیں۔ عالمی ساہوکار آئی ایم ایف بھی اسی وجہ سے ہم پر اپنا دبائو مسلسل بڑھاتا جا رہا ہے اور ’ڈومور‘ ’ٹیکس بڑھائو، ٹیکس بڑھائو‘ کے ساتھ ساتھ کئی اور عوام دشمن مطالبے بھی کر رہا ہے جس سے حکومت کی معاشی ٹیم کے اوسان خطا ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف محض ایک ارب ڈالر کے قرضے کیلئے ہمیں ناکوں چنے چبوا رہا ہے اور ہم اپنی کمزور اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے کشکول گدائی پھیلانے پر مجبور ہیں۔ ہم اپنے دوست ممالک سے کئی ارب ڈالر حاصل بھی کر چکے ہیں لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر کیلئے جھکے جا رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم مانگے تانگے کی دولت جس کا ہم سود در سود ادا کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتے اس سے توبہ کر لیں۔
مملکتِ خدا داد پاکستان کے حکمران یاد رکھیں کہ قرضے اور سود سے کبھی بھی تباہ حال معیشت بحال نہیں ہوتی بلکہ سود سے برکت بھی اٹھ جاتی ہے۔ ہم سود کے خاتمے کے بلند و بانگ دعوے تو اکثر کرتے رہتے ہیں لیکن عملاً اپنی معیشت کو سود پر ہی چلا رہے ہیں۔ اس سے کیا خاک برکت حاصل ہو گی۔ موجودہ حکومت کے معاشی چیمپئن وزیر خزانہ کی صدارت میں کراچی میں ہونیوالے حرمت سود سیمینار میں بھی کئی بلند و بانگ دعوے کیے گئے لیکن اس سے پہلے سیمینار کا نام حرمت سود رکھنے والوں کی ذہانت پر کئی سوالات بھی اٹھتے ہیں۔ یہ ایک لمبی بحث ہے کہ حرمت کا لفظ سود کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس حقیقت کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ سود حرام ہے، سود لعنت ہے۔ سود ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور یہ کہ سود اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف کھلی جنگ ہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ایک طرف سود کے جلد خاتمے کا اعلان کرتے ہیں اور وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر اپیلیں واپس لیتے ہیں تو دوسری طرف شرح سود کو 15 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد کر کے معیشت کا مزید بھٹہ بٹھانے کی عملی کوششیں کرتے ہیں کیونکہ ا س سے سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار میں اضافے کا عمل فوراً رک جائیگا اور مہنگائی کا جن مزید بے قابو ہو کر عوام کا خون نچوڑ دیگا۔ عوام خاطر جمع رکھیں، ابھی ہمارے دانش مند حکمران ٹیکسوں کی شرح بڑھانے اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی عوام دشمن منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ وگرنہ آئی ایم ایف ان کے کشکول میں مونگ پھلی کے دانے کے برابر رقم نہیں ڈالے گا۔ ہمارے سمندر پار پاکستانی ہر ماہ اوسطاً اڑھائی ارب ڈالر اپنے وطن کو بھیجتے ہیں اگر انکے مسائل کو حل کر دیا جائے تو یہ محبِ وطن پاکستانی ہمیں قرضے کی لعنت سے بآسانی محفوظ کر سکتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے انکے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کیلئے رتی بھر بھی کام نہیں کیا۔ ہماری ترسیلات زر میں قابلِ قدر اضافہ نہیں ہو رہا نہ جانے ہمارے منصوبہ سازوں کو کب اس بات کا احساس ہو گا؟
میثاقِ معیشت اور جمہوریت، وقت کی اہم ضرورت
Dec 11, 2022