پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور ہمارے حکمران  

Dec 11, 2022

گزشتہ روز قومی اخبارات میں  یہ خوش کن خبر پڑھنے کو ملی کہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں  30 روپے فی لٹر تک کمی کا امکان ہے ۔اس وقت تیل کی پرچون قیمت 224.80 روپے فی لٹر ہے۔اگر اس میں  ( گمان کے مطابق ) تیس روپے فی لٹر کمی کردی جائے تو یہ  قیمت 194.80  ہو سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نوع کی  دل خوش کن خبر کا انتظار تو قوم کو کافی دنوں سے تھا ۔ کیونکہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔جس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نیچے آ رہی ہیں۔ ہم یہ گمان کیے بیٹھے تھے کہ عوام کو ریلیف دینے کے وعدے پر آئی حکومت  کو عوام کو ریلیف دینے کا ایک سنہری موقع ہاتھ آ گیا ہے سو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں کرے گی  اورپاکستان میں بھی عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کا فائدہ  عوام تک پہنچاسکے گا لیکن ہماری امیدوں پر او س اس وقت  پڑ گئی جب  وفاقی وزیر خزانہ نے  پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کرنے کے بجائے انہیں برقرار رکھنے کا اعلان کردیا اور یہ ایک سے زیادہ بار کیاگیا جس کی وجہ سے عوام میں مایوسی کا پیدا ہونا یقینی امر تھا ۔اس لیے کہ اس وقت پوری قوم مہنگائی کی چکی تلے بری طرح  پسی ہوئی ہے ۔ اس کے لیے زیست کرنا ایک مشکل امر ہو چکا ہے ۔ہر روز کسی نہ کسی چیز کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں ۔ یعنی حکومت کے قیام سے آ ج تک ایک  بھی چیز ایسی  نہیں ہے جس کی قیمت میں کمی کی گئی  ہو۔ تاجر پیشہ طبقہ پوری آزادی کے ساتھ جس چیز کی چاہتا ہے قیمت بڑھا دیتا ہے حکومت کا اس پر کوئی چیک یا کنٹرو ل  دکھائی نہیں دیتا ۔ گویا عوام الناس سراسر تاجروں کے رحم و کرم  پر ہیں ۔ ابھی دو روز قبل ددوھ اور دہی کی قیمتوں میں دودھ فروشوں نے یک مشت20 روپے  فی کلو /  فی لیٹر اضافہ کردیا  جس پر حکومت کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ۔ یہ صورت حال بہر حال افسوس ناک ہے۔
ویسے  ہمارے ہاں ایسا کم  کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی  ہوئی ہو اور اس کا فائدہ عوام کو بھی ہوا ہو۔ حالانکہ ملک میں ہر ماہ میں دو مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کیا جاتا ہے ۔ جب ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے اور عالمی سطح پر تیل مہنگا ہونے پر ملک میں تیل کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں لیکن سستا ہونے کی صورت میں ان قیمتوں میں کمی خال خال ہی کی جاتی ہے اور جو کمی کی جاتی ہے وہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے تناسب سے نہیں کی جاتی۔ جس کی وجہ سے عوام میں حکومت کے خلاف منفی جذبات جنم لیتے ہیں۔ 
 دنیا کی اقوام ترقی وخوش حالی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے لیے اپنے دستیاب وسائل کا پوری دیانتداری کے ساتھ استعمال کرتی ہیں، خود احتسابی کا راستہ اپناتی ہیں اور اپنی افرادی قوت سے بہترین اور منظم انداز میں استفادہ کرتی ہیں۔ پاکستان بھی یہ سنگ میل عبور کر سکتا ہے۔ پاکستان کی قوم بہترین صلاحیتوں کی مالک ہے، یہاں ملک کی کثیر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جن کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں آگے بڑھے بغیر ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لیے تعلیمی شعبے میں انقلابی اصلاحات لانے اور اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ہمیں زمینی حقائق کے مطابق اپنے اہداف متعین کرنا ہوں گے اور پھر ان کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ ہمیں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت بھی اس لیے پیش آئی تھی، ہم نے اپنے وسائل سے بڑھ کر اخراجات کیے۔ ہماری حکومتوں نے ملکی وسائل میں اضافہ کرنے اور انہیں وسعت دینے کے بجائے بیرونی ممالک سے امداد پر  زور دینا شروع کر دیا۔ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی حکمتِ عملی اپنانے کے بجائے غیر ملکی بیساکھیوں کا سہارا لینے کو ترجیح دی۔ چادر سے  باہر پائوں پھیلانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اپنے اخراجات اور ضروریات پوری کرنے کے لیے قرضوں پر انحصار کرنا پڑا، جو قرضے لیے گئے بدقسمتی سے انہیں ملکی مفاد اور عوامی فلاح کے لیے استعمال کرنے کے بجائے غیر پیداواری کاموں پر خرچ کرنا شروع کر دیا اور یوں اپنے پھیلائے جال میں خود ہی پھنستے چلے گئے۔ اب قرضوں کا حجم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ان پر قابلِ ادا سود کی ادائیگی کے لیے بھی قرضہ لینا پڑا اور اس میں کسی ایک حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ پریکٹس گزشتہ چار عشروں پر محیط ہے اور ہر حکومت نے اس میں اپنا کردار ادا کیا ہے جبکہ  اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے، بدقسمتی یہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت  نے جانے والی حکومت کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیا اور خود بھی جاتے جاتے انہی خرابیوں ہی کو اپنا کر ملک کی معیشت کوتباہ حالی سے دوچار کر دیا۔
اب میاں  شہباز شریف کی قیادت میں درجن بھر جماعتوں پر مشتمل جو اتحادی حکومت اقتدار کے مزے لے رہی ہے اس نے بھی عوام سے تباہ حال معیشت کی بحالی، خودانحصاری کی منزل کے حصول اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے بلند بانگ وعدے کر رکھے ہیں۔ میاں شہباز شریف جو بہترین منتظم تصور کیے جاتے ہیں ان کے پاس ایسی ماہرین پر مشتمل ٹیم بھی ہے جو ان کے وعدوں کو عملی شکل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے عوامی فلاح کے حوالے سے کیے گئے وعدے کب اور کس حد تک وفا کرتے ہیں ۔

مزیدخبریں