فیصل آباد (نمائندہ خصوصی) خواتین کے حوالہ سے اتنی زیادہ قانون سازی اور انسانی حقوق کے اداروں کے قیام کے باوجود گزشتہ برس پنجاب میں مختلف مقامات پر 3914 زیادتی کے واقعات، 664گھریلو تشدد، 174غیرت کے نام پر قتل، 44 تیزاب پھینکنے کے واقعات اور 14 زبردستی کی شادی جیسے واقعات درج ہوئے۔ قوانین اور ادارے مناسب وسائل کی عدم دستیابی جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر عوام پاکستان اور ڈریگ کے زیر اہتمام ایک میڈیا بریفنگ کے دوران کیا گیا۔ سابقہ ممبر پنجاب کمشن برائے حقوق نسواں اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر عوام پاکستان شازیہ جارج، سیاسی کارکن و صدر ڈریگ الحاج چوہدری لطیف گل، ریسرچ سکالر و ڈپٹی ڈائریکٹر عوام سونیا پطرس، پروگرام کوآرڈینیٹر عوام پاکستان سونیا جاوید اور جنرل سیکرٹری ڈریگ میاں افتخار احمد نے اس موقع پر خیالات کا اظہار کیا۔ شازیہ جارج نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف حکومتوں نے اپنے اپنے ادوار میں انسانی حقوق سے متعلقہ قوانین اور ادارے کا قیام یقینی بنایا لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود افراد باہم معذوری، خواتین، مذہبی اقلیتوں کی حالت زار میں کوئی خاطر بہتری نہ آپائی۔ الحاج چوہدری لطیف گل نے افراد باہم معذوری کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈریگ کے پلیٹ فارم پرگزشتہ پانچ سالوں میں کل 5273 افراد باہم معذوری کو معذوری کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے میں معاونت کی گئی‘ میڈیکل بورڈ نے 2465 کو کام کرنے کے قابل اور 2808 کو کام کے لئے ناقابل قرار دیا۔ ایسی صورتحال میں اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان افراد کو موجود قوانین اور طے شدہ ملازمتوں میں 3فیصد کوٹہ کے تحت سہولتیں فراہم کرے۔ سونیا پطرس نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کے تحفظ کیلئے بنائے گئے قوانین پر سختی کے ساتھ عمل درآمد یقینی بنایا جائے جبکہ اس حوالے سے میکنزم کو بھی تیز اور شفاف بنایا جائے۔ میاں افتخار احمد نے کہا کہ ریاستی نمائندگان اور سیاسی فیصلہ ساز افراد کو ملکی قانون سازی کو بین الاقوامی معاہدوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا اور شہریوں کو ان کی بنیادی آزادیوں کے تحفظ اور فروغ کو یقینی بنانا ہو گا۔