آج کا اہم سوال یہی ہے کہ عمران خان کا کیا بنے گا؟ اس سوال کے جواب میں ہر بندے کی اپنی اپنی دلی خواہش پوشیدہ ہے ۔ عمران خان کے چاہنے والے اس سوال کا اور جواب دیں گے ۔ ان سے نفرت کرنے والوں کا جواب مختلف ہوگا۔ پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کے منشور نہیں ہوتے اور نہ ہی مستقبل کے کوئی ٹھوس پروگرام بنائے جاتے ہیں۔ یہاں سیاست شخصیات کے ارد گرد گھومتی ہے ۔ ہندوستانی اہم اخبار نویس افتخار گیلانی نے لکھا۔ اندرا گاندھی خاندان سے راہول یا اس کی ہمشیرہ پرنیکا گاندھی ہجوم تو جمع کر سکتے ہیں مگر اس کو ووٹوں کو تبدیل کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں کسی سیاسی شخصیت کیلئے مقبولیت اور قبولیت یکساں اہم ہیںبلکہ قبولیت کو مقبولیت پر برتری حاصل ہے ۔ کیونکہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے مقتدر قوتوں سے سانٹھ گانٹھ بہت ضروری ہے۔ بعض اوقات مقتدر قوتوں کی مرضی کے خلاف کوئی جماعت جیت بھی جائے تو اسے اقتدار میں آنے کیلئے بہت سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ مقتدر حلقے اپنی اس ڈیل کو چھپانے کی بھی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ آج مقتدر قوتیں اپنا نقاب اتار کر سامنے آن کھڑی ہوئی ہیں۔ بیسویں صدی کے اختتام تک اتنی ننگی صورت حال نہ تھی ۔ پھر بھی صورت احوال یوں تھی۔ ایڈمرل افتخار احمد سروہی نے اپنی آٹو بائیو گرافی ’’سچ سمندر ‘‘ میں کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اقتدار کی منتقلی میں اپنے ادارے کی مداخلت بیان کر دی ہے۔انہوں نے لکھا۔ 88ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 94اور آئی جے آئی نے 54نشستیں حاصل کرلیں۔ اندرون سندھ سے پیپلز پارٹی کی واضح اکثریت تھی ۔ جبکہ کراچی حیدر آباد میں ایم کیو ایم نے میدان مار لیا۔ اب قومی اسمبلی کے نتائج سے واضح ہو گیا کہ مرکز میں پیپلز پارٹی حکومت بنائے گی اور بینظیر بھٹو ہی وزیر اعظم بنیں گی ۔ چیف آف آرمی سٹاف ایوان صدر کے ایک اجلاس میں صاف صاف کہہ چکے تھے کہ بینظیرخود انہیں اور فوج کو قابل قبول نہیں ہونگے ۔ یہی بات وہ بیگم جنرل ضیاء الحق سے بھی کہہ چکے تھے ۔ بینظیر بھٹو نے آرمی چیف کے موقف کا پتہ چلنے پر ان سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات کے بعد جائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرمیں آرمی چیف نے بینظیر بھٹو سے اپنی ملاقات کی روداد سنائی ۔ انہوں نے بتایا کہ بینظیر بھٹو نے اس کے حسب ذیل پانچ نکات تسلیم کر لئے ہیں: ۱۔ افغان پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائیگی۔ ۲۔ ایٹمی پالیسی میں کوئی ردو بدل نہیں کیا جائیگا۔ ۳۔ ڈیفنس پالیسی حسب معمول جاری رہے گی ۔ ۴۔ سول سروس کے انتظامی ڈھانچہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائیگی۔ ۵۔ جنرل ضیاء کے خاندان کو ہراساں نہیں کیا جائیگا۔ آرمی چیف نے یہ شرائط تسلیم کرنے کے بعد بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم بنانا قبول کرلیا۔ اب میرے اور دوسرے ساتھیوں کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔ یہ فیصلہ آرمی چیف نے اپنی مرضی سے کیا تھا۔ہم نے آرمی چیف کو ان کے سابقہ بیانات اور خیالات یاد کروائے۔ اس طرح ان کے موقف میں تبدیلی پرحیرت کا اظہار کیا لیکن اس کا کچھ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آرمی چیف نے بادشاہ گر کا کردار اختیار کرلیا۔ سروہی نے جس ’’بادشاہ گری‘‘ کے کردار کا ذکر کیا ہے ، وہ ہمیشہ سے موجود رہی ہے ۔ عدالتی جدو جہد سے ابھرنے والی سیاسی قیادت اور تحریک انصاف کے نئے بننے والے سینئر نائب صدر شیر افضل مروت نے حال ہی میں اپنے جلسوں میں پاک فوج زندہ باد اور شہداء فوج زندہ باد کے نعرے لگوانے شروع کر دیئے ہیں۔ ابھی وہ اپنے ادارے کی بادشاہ گری کے اختیار سے دستبردار نہیں ہوئے ۔ یہ کڑوا سچ اگر عمران خان نہیں جانتا تو پھر اور کون جانتا ہے ؟ پھر پارٹی کے نئے بننے والے سینئر نائب صدر پارٹی پالیسی کے خلاف تو نہیں چل سکتے۔ پارٹی پالیسی پارٹی لیڈر کی منشاء ہی کا نام ہے ۔
گویا عمران خان سمیت مقتدر قوتوں کے کلیدی کردار کا کوئی بھی مخالف نہیں۔ سبھی اختیار نہیں صرف حکومت چاہتے ہیں۔ ایک فریق تو اس کا برملا اظہار بھی کر رہا ہے ’’ہماری بات ہو گئی ہے ، وزیر اعظم ہمارا ہوگا‘‘۔ دوسرا بھی اسی قسم کی خواہش پال رہا ہے۔ چیف جسٹس نے یکم دسمبر کو عمران خان کے اپنے نام بھجوائے گئے سات صفحوں پر مشتمل خط کا جواب یوں دیا ہے ۔ ’’چیف جسٹس جانبداری دکھائیں گے اور نہ ہی ان پردبائو ڈالا جا سکتا ہے ‘‘ ۔ وہ اپنے پیشروئوں سے بالکل مختلف عز م کا اظہار کر رہے ہیں۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟
بلاول بوڑھی قیادت کو ریٹائرمنٹ کا مشورہ دے رہا ہے ۔ اس کے مشورے سے زیادہ دھیان زرداری اور نواز شریف کی طرف جاتا ہے ۔ حالانکہ وہ بیچارا عمران خان کو ہِٹ کر رہا ہے ۔ بوڑھی سیاسی قیادت کو ریٹائرمنٹ کا مشورہ دینے والے بلاول کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہماری یوتھ عمران خان کو بلاول سے زیادہ جوان سمجھتی ہے ۔ بلاول زرداری سیاست کا ایک ماڈل ہے ۔ اس نے کبھی ریفارم کی بات نہیں کی۔’’ جاگیرداری ٹھاہ ‘‘ کے نعروں کے بغیر بھٹو پارٹی محض زرداری پارٹی ہو کر رہ گئی ہے ۔ ایک ٹائون ڈویلپر کی طرف سے گفٹ کئے گئے بلاول ہائوس میں کھڑے ہو کر’ سرمایہ داری ٹھاہ ‘ کا نعرہ لگانا بھی کچھ بد اخلاقی سی ہے۔’’پیر اور ہمشیر میں پھنس گیا اسیر ‘‘۔ استحکام پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان قافیہ ردیف تو خوب ملا رہی ہے لیکن عمران خان کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ریحام خان کی گھٹیا کتاب، عائشہ گلالئی کے بازاری الزامات ، ہاجرہ خاں کی انگریزی کتاب، مانیکا اور اس کے ملازم کے بیانات ’’عمران خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے‘‘۔ تحریک انصاف سے الیکٹیبلز کسی نامعلوم دبائو کے تحت بھاگے چلے جارہے ہیں لیکن ملک کے نوجوان عمران خان کے ساتھ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ بااصول اور کسی چٹان کی طرح اپنے موقف پر اڑا ہوا اکبر ایس بابر عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کے باعث مذاق بن کر رہ گیا ہے ۔ پاکستان میں الیکشن سبھی جماعتوں میں ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے پچھلے دنوں تحریک انصاف میں کروائے گئے ۔ یورپ کی جمہوریت ادھر نہیں چل سکتی ۔ جمہوریت کا پہلا اصول مخالف رائے کا احترام ہے ۔ لیکن ادھرہر قیمت پر الیکشن جیتنے والی جمہوریت ہے ۔ ہر ووٹر اپنی پسندیدہ سیاسی شخصیت کو کامیا ب دیکھنا چاہتا ہے ۔ چاہے وہ جیسے بھی کامیابی حاصل کرے ۔ اپنے پسندیدہ امیدوار کی الیکشن میں کامیاب دھاندلی پر وہ یوں تبصرہ کرتا ہے ۔ ’’گیم چنگی پائی سو‘‘۔
ایڈمرل سروہی کے بیان کردہ واقعات اور شیر افگن مروت کے’ فوج زندہ باد‘ کے نعروں کی روشنی میں عمران خان کے مستقبل کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔
عمران خان کا کیا بنے گا ؟
Dec 11, 2023