غزہ میں جنگ دو ماہ سے جاری ہے اور ابھی تک اِس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے اور عالمی طاقتیں اِ س پر تشویش کے اظہار سے زیادہ کچھ نہیں کر پا رہیں اور اقوامِ متحدہ جس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی امن و سلامتی کو یقینی بنائے وہ بھی بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کہ اب تک 17000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں ہزاروں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ ایک عظیم اِنسانی المیہ وقو ع پذیر ہے۔ 80 فیصد آبای بے گھر ہو چکی ہے۔ لوگ محفوظ پناہ گاہوں سے بھی باہر بھاگ رہے ہیں کہ محفوظ پناہ گاہیں بھی راکٹوں اور بمبوں کے نشانے پر ہیں۔ امداد کرنے والے ادارے بے بس ہیں کہ اداروں کو امدادی کام کرنے کے لیے بے پناہ رکاوٹیں ہیں۔ اِنسانیت کی تذلیل کا یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں درجنوں فلسطینی مردوں کو اِن کے زیر جامہ اْتار کر زمین پر گھٹنے ٹیکتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور بعض تصاویر میں اْنہیں فوجی ٹرکوں میں جانوروں کی طرح لے جایا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ کے امدادی ٹیم کے سربراہ کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں اِنسانی بنیادپر ہونے والے کسی اپریشن کا کوئی وجود نہیں اور لوگ یکسر بے یارومددگار ہیں۔ اور اِس مایوس کن صورتِ حال میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی ملاحظہ ہو کہ اْنھوں نیبیروت اور جنوبی لبنان کو غزہ میں تبدیل کرنے کی دھمکی دی ہے اور دْنیا نے اْن کی خواہش پر سرِ تسلیم خم کر دیا ہے۔ دْنیا میں مشرق وسطی بالخصوص فلسطین پر نظر رکھنے والے دانش ورں اور تجزیہ کاروں کے خیال میں دْنیا کے سیاسی راہ نما اِس بات کی نشاندہی کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں کہ غزہ میں زمینی حقائق کیا ہیں۔ 8 ملین لوگوں کی زبردستی منتقلی ہو چکی ہے۔ 80 فیصد ا?بادی مسلسل بے رحم بمباری کی زد میں ہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ نہتے لوگوں کی بھوک،بے بسی اور نسل کشی کو جنگ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہاہے۔
فلسطین میں جاری جنگ کا ایک تاریخی پس ِ منظر ہے جو کہ ایک بہت تلخ حقیقت پر مبنی ہے اور وہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ فلسطین اور عرب دْنیا کے لیییہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کی صبح حماس کے اسرائیل پر راکٹ حملوں سے شروع نہیں ہوئی بلکہ یہ جنگ اْن کے لیے 1948 سے جاری ہے جب اسرائیلی ملیشیا نے فلسطینیوں کو اْن کے گھروں سے بے دخل کیا اور ہزار افراد کو شہید کیا جسے نکبہ یا تباہی کہا جاتا ہے۔ یہ 1967 عرب اسرائیل کی چھ روزہ جنگ میں بھی جاری رہی جس میں اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ اور مشرقییروشلم پر قبضہ کرنا شروع کیا اورتنازع کو مزید پیچیدہ کر دیا اور یوں دہائیوں سے فلسطینی زخمی ہیں اور اْن کی زمین ا?گ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔اِن سات دہائیوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ فلسطینیوں نے یا اْن کی پشت پر کھڑے عربوں نے کبھی سکھ کا سانس لیا ہو۔ اپنی ہی زمین سے بے دخل ہو جانے والے لوگ سات دہائیوں سے اِنصاف کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔دْنیا میں عمومی طور پر اور عرب دْنیا میں خصوصی طور پر فلسطین کے معاملے پر اِنسانی حقوق کی سیاست کی جاتی رہی۔ اگر آپ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں کی عرب سیاست کا عمیق جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ عرب قوم پرستی کے عروج کے دور میں فلسطین عربوں کی سیاست کا مرکز رہا ہے۔
فلسطین کے تناظر میں بین الاقوامی امن و انصاف کے لیے بڑی طاقتوں کے کردار کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل کی مجوزہ قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ یہ بین الاقوامی انصاف کی فراہمی کا مظاہرہ 8 دسمبر 2023 کو ہونے والی ووٹنگ میں ہوا جب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل گوٹیریس اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود لیکن شاذ ہی استعمال ہونے والے آرٹیکل 99 کو عمل میں لے آئے۔ یہ آرٹیکل کسی ایسے معاملے کو حل کرنے کے لیے عمل میںلایا جا سکتا ہے جو اْن کی رائے میں، بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اِس وقت دْنیا کے اکثر ممالک اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی رائے کی تائید کرتے ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کی جنگ اِس نہج پر ہے کہ اِس سے بین الاقوامی امن کو حقیقی خطرہ ہے۔اقوام متحدہ میں وضاحت کرتے ہوئے امریکہ کے نائب مستقل نمائندے رابرٹ ووڈ نے کہااگرچہ امریکہ ایک پائیدار امن کی بھرپور حمایت کرتا ہے جس میں اسرائیل اور فلسطین دونوں امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ہم فوری جنگ بندی کے مطالبات کی حمایت نہیں کرتے۔ یہ صرف اگلی جنگ کے بیج بوئے گا کیونکہ حماس بطور تنظیم ایک پائیدار امن دیکھنے یا دو ریاستی حل دیکھنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی۔ امریکی نائب نمائندے رابرٹ ووڈ نے یہ بھی کہا کہ قرارداد میں جلدی کی گئی تھی اور 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے عسکریت پسندوں کے حملے میںیرغمالیوں کو آزاد کرانے کے معاملے کو بھی نظر انداز کیا گیا تھا۔
اِنسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے مطالبے کی حمایت میں ناکامی فلسطینیوں کے مزید قتل، بین الاقوامی قانون کی مزید خلاف ورزیوں، جنگی جرائم کے مزید ارتکاب کی توثیق ہے۔اور اسرائیل کے لیے کی جانے والی سہولت کاری سے غزہ میں ایک خوفناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ ویٹو کی وضاحت میں دو بہت اہم نکتے اْٹھائے گئے۔ پہلا نکتہ یہ کہ قرارداد کے متن میں حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کی مذمت نہیں کی گئی جس میں 2000خواتین، بچے اور بزرگ افراد ہلاک ہوئے۔ اور دوسرا نکتہ یہ کہ قرارداد کے متن میںیہ بھی تسلیم نہیں کیا گیا کہ اسرائیل کو دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ وضاحت میں بہرحال ہزاروں عورتوں اور بچوں کی شہادتوں اور لاکھوں فلسطینیوں کی اپنے گھروں سے بے دخلی کا ذکر نہیں ہے۔
اِ س صورت ِ حال میں دواہم سوال اْٹھتے ہیں۔ پہلا سوال کہ کیا اقوام متحد ہ جیساادارہ اپنے امن و سلامتی جیسے مقاصد حاصل کرنے میں ناکا م ہوچکاہے؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوامِ عالم غزہ میں رْونما ہونے والے انسانی المیے کے باوجود کوئی حل نکالنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔اور اِس ناکامی کے بعد مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کی فوجی کاروائی کی وجہ سے اِ نسانی مصائب بڑھیں گے ، بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں ہوں گی اور لاکھوں لوگوں کو جبری بے گھر ہونا پڑے گا۔ایسی صورتِ حال میںیوں لگ رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے پلیٹفارم سے ہی ایک جارح اور غاصب کی سہولت کاری ہو رہی ہے۔ اگر اقوامِ متحدہ میں بڑی طاقتوں کے مفادات کو بھلے وہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو ادارہ جاتی سہولت کاری ہوگی تو اقوامِ متحدہ کے وجود کی دلیل پر بھی سوال اْٹھیںگے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی مفادات اور اسرائیلی بالادستی بین الاقوامی امن اور انصاف سے زیادہ اہم ہیں؟ کیا سیاسی مقاصد کی تکمیل لاکھوں انسانی جانوں سے زیادہ ضروری ہے؟ اگر بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے فلسفے کی رْو سے دیکھیں گے تو بڑی طاقتوں کے مفادات چھوٹے اور کمزور ملکوں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ اور بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کا کوئی ضابطہ اخلاق بھی نہیں ہوتا۔غزہ عالمی اخلاقیات کا امتحان ہے جس کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر مفادات سے ٹکراتے ہوں تو اِنسانی حقوق بھی اِنسانی حقوق نہیں ہوتے یا کم از کم کمزوروں کے اِنسانی حقوق نہیں ہوتے۔ میری رائے میں اگر بین الاقوامی امن اور انصاف اقوامِ متحدہ اور بڑی طاقتوں کی ترجیحات میں ہیں تو اْس کے لیے بڑی طاقتوں کو اپنے ملکی مفاد سے بالا سوچنا پڑے گا اوراقوام ِ متحدہ کو قوموں اور ملکوں کے مابین انصاف پر مبنی فیصلے کرنا پڑیں گے۔بصورتِ دیگریہ ا?گ اور بارود کا خونی کھیل جاری رہے گا۔
٭…٭…٭