غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی اور امریکی سہولت کاری

امریکا کی جانب سے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انسانی بنیادوں پر غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد ویٹو کرنے پر حماس کے رہنما عزت الرشق نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے غیر اخلاقی اور غیر انسانی موقف اپنایا۔ امریکا نے ہمارے لوگوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی مددکی۔ عزت الرشق جو کچھ کہا ہے دنیا بھر کے عوام کو یہ بات بہت پہلے سے سمجھ آگئی تھی اسی لیے امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا مختلف ملکوں میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں جن میں صرف غاصب صہیونی ریاست کی ہی مذمت نہیں کی جارہی بلکہ اسے اسلحہ اور گولا بارود کے علاوہ ہر قسم کی امداد و اعانت فراہم کرنے والے ممالک کے خلاف بھی نعرے بازی کی جارہی ہے۔ ساری دنیا یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے اور اسے دہشت گردی کرنے کے لیے امریکا اور اس کے حواریوں کی سہولت کاری حاصل ہے۔
سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کے لیے جو تازہ قرارداد پیش ہوئی تھی اس کے حق میں 15 میں سے 13 ارکان نے ووٹ دیے۔ حسبِ توقع برطانیہ ووٹنگ کے عمل سے باہر رہا جبکہ امریکا کی جانب سے ہمیشہ کی طرح دہشت گرد اور غاصب صہیونیوں کی مدد کرنے کے لیے اس قرارداد کو ویٹو کردیا گیا۔ ایران نے امریکا کی طرف سے غزہ جنگ بندی قرارداد ویٹو کرنے پر ردعمل میں کہا ہے کہ جنگ کی امریکی حمایت جاری رہی تو خطے میں بے قابو صورتحال کا امکان ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ خطے میں کشیدگی کا ذمہ دار ہے۔ ادھر، ترک صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ بندی کی قرارداد صرف امریکا نے ویٹو کی، کیا یہ انصاف ہے؟ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ترک صدر کا یہ مطالبہ یا تجویز بالکل جائز ہے لیکن اس پر عمل کون کرے گا؟ امریکا اور اس کے حواری کبھی بھی ایسی اصلاحات نہیں ہونے دیں گے۔
اسی حوالے سے فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی قرارداد پر امریکی ویٹو اشتعال انگیزی ہے۔ غزہ میں معصوم بچوں، خواتین اور معمر افراد کے خون بہانے کا ذمہ دار امریکا ہے۔ امریکی اقدام تمام انسانی اصولوں اور اقدار کی خلاف ورزی اور اشتعال انگیز اور غیر اخلاقی ہے۔ دوسری جانب، فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیہ نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی امریکی حکام کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کی پٹی کو سنبھالنے کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔ محمد اشتیہ نے ایک انٹرویو میں رام اللہ میں واقع اپنے ہیڈکوارٹر ز سے کہا کہ حماس فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی جونیئر پارٹنر ہے۔ پی ایل او ایک نئی آزاد ریاست کے قیام میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ یہ ریاست مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی القدس کو شامل ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے اور حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا اسرائیل کا ہدف غیر حقیقی ہے۔
سلامتی کونسل کی قرارداد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں نائب امریکی سفیر رابرٹ وڈ کا کہنا تھا کہ قرارداد کا ڈرافٹ غیر متوازن ہونے کے علاوہ حقیقت سے ہم آہنگ نہیں۔ قراردادکو بہتر بنانے کے لیے اس میں حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کی مذمت کو شامل کیا جائے جس میں 1200 اسرائیلی ہلاک اور 240 سے زائد یرغمالی بنا لیے گئے تھے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ حماس کی بربریت کبھی بھی فلسطینی عوام کی اجتماعی سزا کا جواز نہیں بن سکتی۔ ایک بیان میں انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ غزہ میں انسانی بحران کا سنگین خطرہ لاحق ہے، فوری جنگ بندی کی جائے۔ غزہ میں خوراک،ایندھن، پانی اور ادویات کی کمی، بیماریوں کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ 
ادھر، پاکستان نے سلامتی کونسل کی جانب سے ایک بار پھر غزہ میں جنگ بندی کی اپیل نہ کرنے پر مایوسی کا اظہارکرتے ہوئے انسانی المیہ سے بچنے کے لیے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔ دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کی درخواست اور غزہ میں انسانی تباہی سے متعلق وارننگ کے باوجود سلامتی کونسل بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ غزہ کے محصور عوام جس اجتماعی سزا کو برداشت کر رہے ہیں وہ ناقابل قبول ہے اور اس کی مثال نہیں ملتی۔ بیان میں اسرائیل سے غزہ کے خلاف ہر وحشیانہ حملے اور غیر انسانی محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
غزہ میں امریکی سہولت کاری کے ساتھ ہونے والی اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف پوری دنیا میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور ان مظاہروں کے دوران عوام اپنے ممالک کی حکومت کو یہ احساس دلا رہے ہیں کہ معصوم فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر وہ خاموش نہیں بیٹھیں گے لیکن مسلم ممالک کے حکمران خاموش تماشائی بن کر یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ان کی طرف سے منظر عام پر آنے والے کھوکھلے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فلسطینیوں سے ہرگز کوئی ہمدردی نہیں رکھتے، بس اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بیان بازی کی جارہی ہے۔ اگر مسلم ممالک واقعی فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو ختم کرانا چاہیں تو ایک دن بلکہ چند گھنٹوں میں ہی غاصب صہیونیوں اور ان کے حامیوں کو سبق سکھایا جاسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن