بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
سکول زمانے کی بات ہے !! کلاس روم کی دیوار کی طرف طلباء منہ کر کے بیٹھے ہوتے تھے ،دیوار پر پوسٹر بھی لگا ہوا تھا ۔ سکول میں نومبر اور دسمبر میں مختلف قسم کی تقریبات ہوا کرتی تھیں جس میں سالانہ کھیل ، سالانہ تقریری مقابلے ۔سالانہ پوسٹر بنانے کے مقابلے سالانہ بیت بازی کے مقابلے وغیرہ وغیرہ پوسٹر کے علاوہ جتنی تقریبات ہوتی تھیں وہ ایک دو دن میں ہی ختم ہو جاتی تھیں مگر پوسٹر کی خاص بات یہ تھی کہ اگلے سال مقابلے تک اسی کلاس میں ہی لگا رہتا تھا جبکہ اس کلاس میں اپریل میں سالانہ امتحانات کے بعد نئی کلاس آ جاتی تھی میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ اس نئی کلاس میں آ گیا جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا پتہ نہیں میرے علاوہ کسی اور نے اس پوسٹر کو اتنے غور سے دیکھا یا نہیں مگر وہ پوسٹر میرے دل اور آنکھوں میں ایسا سمایا کہ میں اسے اپنے آپ سے جدا نہیں کر سکا اس وقت تو اتنی سمجھ نہیں تھی مگر جب سمجھ آئی تو اس کے بعد جب بھی وہ پوسٹر میری آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہے میں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتا اور بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں اس پوسٹر پر کسی نے اڑتے ہوئے ایک سفید رنگ کے کبوتر کی تصویر بنائی تھی اور تلوار سے اس کبوتر کا ایک پر کاٹ دیا تھا اور اس سے خون بہہ رہا تھا ۔ کٹے پر اور بہتے ہوئے خون کے نیچے لکھا تھا " مشرقی پاکستان " میں نہیں جانتا مگر میں اس پوسٹر کو جب تک کلاس میں ہوتا دیکھتا ہی رہتا اور ایک انجانی سی اداسی محسوس کرتا تھا میں سنٹرل ماڈل ہائی سکول لوئر مال پڑھتا تھا جو کہ اپنے وقت میں اردو میڈیم سکولوں میں اپنا علیحدہ ہی مقام رکھتا تھا سردیوں میں ہمیں ڈھائی بجے چھٹی ہوتی تھی اور بس سٹاپ تک پہنچتے پہنچتے تقریبا تین ساڑھے تین بج جاتے تھے ۔ ایک دفعہ سردیوں میں چھٹی کے بعد بس سٹاپ جو بیرون بھاٹی گیٹ لاہور تھا تو ایک اخبار فروش چیخ چیخ کر ضمیمہ بیچ رہا تھا کہ بنگلہ دیش میں'' بغاوت ''ہو گئی اور شیخ مجیب الرحمن اپنی تمام فیملی کے ساتھ قتل کر دیے گئے اس وقت خبروں کے اتنے ذرائع نہیں تھے اس لئے فوری طور پر یہ خبر نہیں تھی کہ کوئی بچا ہے یا نہیں کچھ دونوں کے بعد خبر آئی کہ شیخ مجیب الرحمن کی ایک بیٹی شیخ حسینہ واجد بچ گئی ہیں بات شروع ہوئی تھی یادش بخیر …7 دسمبر 1970کو پاکستان بھر میں انتخابات ہوئے۔ بھاشانی گروپ نے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے مجیب الرحمن کی کامیابی کو یقینی بنا دیا۔ نیپ لیڈر پروفیسر مظفر گروپ نے بھی درپردہ عوامی لیگ کے لئے کام کیا۔ مشرقی پاکستانی کی علیحدگی کے معاملے میں بھاشانی اور نیپ دونوں جماعتیں شیخ مجیب سے بھی دو قدم آگے تھیں۔عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 162 میں سے 160 نشستیں جیت لیں جبکہ مغربی پاکستان سے ایک نشست بھی حاصل نہ کر سکی۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے 138میں سے 81نشستیں سندھ اور پنجاب سے جیت لیں اور مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کی کوئی جماعت کامیاب نہ ہو سکی۔ دونوں حصوں میں نتائج کے اعلان سے صوبائی عصبیت کو فروغ حاصل ہوا اور اقتدار کا مسئلہ صوبائی عصبیت میں بدل گیا۔ جب شیخ مجیب نے ہر معاملہ میں ہٹ دھرمی دکھائی تو صدر یحیٰ خان نے 3 مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کر لیا۔ قیوم مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے مطالبہ کیا کہ اسمبلی سے باہر کوئی فیصلہ کرنے کے بعد اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے جبکہ شیخ مجیب اسمبلی کے اندر اس لئے فیصلہ کرانا چاہتے تھے کیونکہ اکثریت حاصل ہونے کی وجہ سے ہر فیصلہ ان کی مرضی سے ہونا تھا۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے صدر یحیٰ خان نے اجلاس ملتوی کر کے پارلیمانی گروپوں کے سربراہوں کو ڈھاکہ میں مذاکرات کی دعوت دی جس کو شیخ مجیب نے ماننے سے انکار کر دیا اور عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی۔ بہاریوں او رمغربی پاکستانیوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ 23مارچ 1971ء کو پاکستان کی جگہ بنگلہ دیش کا پرچم لہرا دیا۔ علیحدگی کی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے بغاوت کی صورت اختیار کر گئی جس کو بھارت کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی بھارت 1965ء کی جنگ میں شکست کا بدلہ لینے کے لئے پہلے ہی تیاری کر رہا تھا۔ اس کے لئے یہ بہترین موقعہ تھا کہ پاکستان کو دولخت کر کے بدلہ چکائے۔ مغربی طاقتوں نے اپنے اتحادیوں کا ساتھ دینے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ برطانوی ذرائع ابلاغ نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں حد سے زیادہ دخل اندازی شروع کر دی اور مجیب الرحمن کے پراپیگینڈے کو خوب ہوا دی۔بلکہ پاک بھارت جنگ 1971ء میں بی بی سی کی تمام ہمدردیاں مجیب الرحمن اور بھارت کے ساتھ تھیں۔ روس پاکستان کو امریکہ کا دوست سمجھتا تھا جبکہ ان دونوں ممالک کی آپس میں شدید مخالفت تھی اس لئے روس کا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا۔ بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ کر کے اس کو امداد دی اور درپردہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا معاہدہ کر لیا۔ سولہ دسمبر سے ہماری نسل تک کو تو پتہ ہے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا پھر مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے تک کے سفر کے بارے کچھ پڑھا اور کچھ بزرگوں سے سنا ، کتابوں میں ہمیں پڑھنے کو کچھ اور ہی ملتا رہا کچھ لوگوں نے مشرقی پاکستان بننے کی کہانی بھی اس طرح لکھی کہ سارے کا سارا قصور شیخ مجیب الرحمن کا تھا اور وہ بہت بڑا غدار تھا جب سقوط ڈھاکہ کا واقعہ ہوا شیخ مجیب الرحمن میانوالی جیل میں تھا اور چند دن پہلے ہی اسلام آباد کسی سپیشل گیسٹ ہاؤس میں شیخ صاحب کو منتقل کیا گیا تھا گیسٹ ہاوس میں جو شخص شیخ صاحب کی خدمت کر رہا تھا وہ اپنی یاداشتوں میں بتاتا ہے کہ جب شیخ مجیب الرحمن کو سقوط ڈھاکہ کی خبر دی گئی تو شیخ صاحب رات بھر روتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ میں نے کبھی ایسا نہیں چاہا تھا ۔لکھنے والے یہ معاملہ کبھی ذوالفقار علی بھٹو صاحب پر کبھی یحی خان پر اور کبھی پاک فوج پر ڈالتے ہیں مگر یہ ایسا تاریخی معمہ ہے جس کے بارے میں آج بھی لوگوں کو کچھ بھی اس کی حقیقت کے بارے میں پتہ نہیں اور دوسرا واقعہ 16 دسمبر 2014 سقوط ڈھاکہ کے تقریبا 43 سال بعد پشاور اے پی ایس سکول میں معصوم بچوں اور ان اساتذہ کے ساتھ کھیلی گئی خون کی ہولی جس کی وجہ سے نہ صرف ان طلباء اور اساتذہ کے والدین اور لواحقین بلکہ پوری قوم آج تک خون کے آنسو رو رہی سانحہ اے پی ایس کے نو سال گزرنے کے باوجود زخم بلکل تازہ بہ تازہ ہی ہیں پاکستان کی تاریخ میں یہ بد ترین دہشت گردی کی ایسی مثال ہے جس نے ہر چھوٹے بڑے ذی شعور کو رلا دیا اور جب تک وہ زندہ ہیں انہیں رلاتا رہے گا کہتے ہیں کہ وقت بڑا مرہم ہوتا لوگ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ زخموں کو بھول جاتے ہیں مگر قوم آج تک اس دکھ اور غم کی گھڑی کو ایک لمحے کے لئے بھی نہیں بھولی تو ان معصوموں کے والدین اور لواحقین کی کیا حالت ہوگی 1947 میں جو قربانیاں دے کر بزرگوں نے یہ پیارا وطن حاصل کیا تھا اور سمجھ بیٹھے تھے کہ ہم آزاد ہو گئے ہیں کیا واقعی وہ آزادی مل گئی یا پھر وہ تمام کی تمام نسل زندگیوں سے آزاد ہو گئی اور اپنی آنے والی نسلوں کو اسی طرح محکوم چھوڑ کر چلی گئی اس قوم کو کیوں تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد ایسے زخم ملتے ہیں جو کبھی بھی مندمل ہونے والے نہیں ہوتے ۔اللہ پاک اس قوم اور پیارے وطن پر اپنا فضل فرمائیں آمین