سول نافرمانی یا اعلان بغاوت

سردار عبدالخالق وصی 

سول نا فرمانی کا تصور صدیوں سے روشناس ھے یہ احتجاج کی ایک شکل ھے جو کسی مخصوص واقع یا کسی وقتی غیر منصفانہ قانون کے نفاذ کے خلاف قانون شکنی کرکے اظہار کیا جاتا ھے۔ برصغیر میں سول نافرمانی کی اصطلاح بیسیویں صدی میںمارچ 1930 میں مہاتما گاندھی نے نمک پر ٹیکس کے خلاف شروع کی تھی جو احمد آباد سے گجرات کے ساحل تک مہاتما گاندھی کی قیادت میں لانگ مارچ کیا گیا تھا، یا پھر امریکہ میں بوسٹن ٹی پارٹی (1773) کے نام سے مشہور ھے جہاں امریکی نوآبادیاتی باشندے مقامی امریکیوں کے بھیس میں برطانوی جہازوں پر سوار ہوئے اور برطانوی ٹیکس کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کے لیے چائے بندرگاہ میں پھینک دی تھیں ۔
 مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی قیادت میں افریقن امریکن (سیاہ فام امریکیوں)سول رائٹس موومنٹ 1950 سے 1970 کے دوران کارکنوں نے علیحدگی کے قوانین کو چیلنج کرنے اور نسلی مساوات کی وکالت کرنے کے لیے سول نافرمانی کا استعمال کیا۔ 
اسی طرح اینٹی اپارتھائیڈ موومنٹ (1990...1940) جنوبی افریقہ میں سرگرم کارکنوں نے رنگ برنگی حکومت کو چیلنج کرنے اور نسلی مساوات کی وکالت کرنے کے لیے سول نافرمانی کا استعمال کیا۔
ایسی تحریکیں معروف سیاسی راھنما اور قومی جماعتیں لانچ کرتی ھیں جن میں کسی خاص مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد و اصلاحات مقصود ھوتی ھیں۔
عمران خان نے اولا" 2014 میں ایک اسٹیبلشمنٹ سپانسرڈ دھرنا شروع کیا جسے اس وقت کی اسٹیبلمنٹ اور اعلی عدلیہ کے چند ججوں کی بھرپور حمایت اور وسائل دستیاب تھے اس دھرنے کے دوران اور بعد میں بھی سول نافرمانی کے اعلانات کرتا رھا۔بانی پی ٹی آئی کی پاکستان میں سول نافرمانی کی کال کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو 2014 میں، عمران خان نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے سول نافرمانی کے منصوبے کا اعلان کیا۔خان نے سول نافرمانی کی کال کی جو وجوہات بیان کیں ان میں سر فہرست الیکشن دھاندلی کے الزام کا دعویٰ کیا کہ 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) پارٹی کے حق میں دھاندلی کی گئی تھی۔ خان نے حکومت پر کرپشن اور بدانتظامی کا الزام لگایا۔ 
 خان نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات اور اسے دور کرنے میں حکومت کی ناکامی کا شور و غوغا کیا۔ اس کے لئے اس نے جو طریقے استعمال کیئے ان میں 
ٹیکس ادا کرنے سے انکار، خان نے اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ اس وقت تک ٹیکس ادا کرنے سے انکار کریں جب تک حکومت ان کے تحفظات کو دور نہیں کرتی۔ 
 عدالتوں اور اسکولوں سمیت سرکاری اداروں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔خان کے حامیوں نے حکومت پر مستعفی ہونے کے لیے دباو¿ ڈالنے کے لیے ملک بھر میں مظاہرے کئے۔بیرون ملک مقیم تارکین وطن پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں فارن ایکسچینج نہ بھیجیں۔
عمران خان کی قیادت میں سول نافرمانی کی تحریک بالآخر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ تو پھر اس وقت کی اسٹیبلمنٹ اعلیٰ عدلیہ سے وابستہ چند ججوں اور طاھر القادری نے ایکا کر کے اس دھرنے اور سول نافرمانی کی تحریک نے ڈی چوک اور ریڈ زون میں 126 دن ڈرامہ رچائے رکھا پی ٹی وی پر قبضہ، توڑ پھوڑ، وزیر اعظم ھاوس پر لشکر کشی،پولیس آفیسرز کی ذود وکوبی، سپریم کورٹ کی دیواروں پر گندے اور غلاظت زدہ پارچات لٹکائے اس سب کے باوجود جب کوئی الزام ثابت کرسکے نہ حکومت کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرسکے ، تب تحریک نافرمانی اور اعلی عدلیہ کے ججوں نے مل کر پانامہ کا ڈرامہ رچایا اور وزیراعظم نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے الزام پر وزارت عظمیٰ سے برطرف اور جماعت کی صدارت سے ھٹایا۔
عمران خان کی تحریک انصاف کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ اس کا نام اور کام ھے ھی تحریک نافرمانی۔ تحریک انتشار و فتنہ فساد اور تحریک کرپشن و لاقانونیت۔
پاکستان کو اس ناھنجار شخص نے معاشی،سیاسی عسکری اور اخلاقی طور پر تباہ و برباد کرنے کا کوئی موقع ھاتھ سے نہیں جانے دیا آئی ایم ایف کو پاکستان کو قرضہ نہ دینے کی مہم سے لیکر دیگر دوست ممالک کے ساتھ دیرینہ قائم تعلقات کو نادانستہ نہیں بلکہ دانستہ طور اس قدر نقصان پہنچایا کہ اسکی مثال ملنا مشکل ہے۔9 مئی 2023 ھو یا 24 تا 26 مئی 2024 کے واقعات یا پولیس و انتظامیہ، عدلیہ کے ججوں اور صحافیوں اور دوسری جماعتوں کے سیاسی کارکنوں پر حملے، دھمکیوں اور پر تشدد کارروائیوں سے بھری پڑی ھے۔ اس میں سنگین اضافہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کی قیادت میں دوسرے صوبے اور وفاق پر لشکر کشی کیا کبھی کسی نے ماضی میں دیکھی تھی کیا کبھی کسی احتجاجی تحریک میں اسلحہ،پٹرول بموں،غلیلوں اور آنسو گیس کے شیلز کا مجرمانہ استعمال کہیں کبھی ھوا ھے،
پاکستان افواج کے خلاف جو زہریلا پروپیگنڈا بدترین دشمن بھی نہیں کرسکا وہ بانی پی ٹی آئی اور اسکے پیرو کاروں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جاری رکھا ھوا ھے پاکستان کی تاریخ میں اسکی مثال موجود نہیں ھے۔خان کی موجودہ کال کا حشر بھی اسکی سابقہ کالوں سے بد ترین ھوگا عوام اب عمران خان کو سمجھ چکے ھیں گزشتہ کال 24/26 دسمبر کا حشر اور دم دبا کر بھاگنا سب نے دیکھ لیا ھے اور آئیندہ بھی دیکھ لیں گے۔جو کلچر اور رویہ عمران خان نے سیاست میں متعارف کرایا ھے اور وطن و نسلوں کی بربادی کا جو چورن اس نے بیچا ھے اس کے اثرات سے اس ملک کو نکالنے کے لئے تنہا کوئی حکومت سیاسی جماعت اور سوسائٹی مشکل سے کامیاب ھوگی اسکے لئے ریاست کے تینوں ستونوں اور عوام کو مشترکہ جدوجہد کرنا ھوگی۔

سردار عبدالخالق وصی

ای پیپر دی نیشن