مشرقی پاکستان کا سانحہ ''یہ نصف صدی کاقصہ ہے ''

بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com

43 برس قبل بھارت نے سامراج کے ساتھ مل کر قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان پر ایسا زخم لگایا جس سے مادر وطن دو لخت ہوگیا۔ 14 اگست 1947ءکو آزاد وطن کی صورت میں کا ملنے والا قدرت کا انمول تحفہ سولہ دسمبر 1971کو پاکستان اور بنگلہ دیش میں تقسیم ہوگیا۔ بانی پاکستان سے سوال کیا گیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان طویل سمندری راستہ ہے یہ دونوں حصے کیسے یک جان اور یک قالب رہیں گے؟ عظیم قائد نے توقف کے بعد جواب دیا کہ ''دونوں حصوں کو کلمہ طیبہ کی برکتیں' سعادتیں اور سیادتیں متحد رکھیں گی'' یہ وہ پاکستان ہے جس کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی، ایک کروڑ سے زائد مظلوم' مجبور اور بے آسرا مسلمان بے سروسامانی کے عالم میں ہندوستان سے آزاد وطن پہنچنے۔ لاہور میں مہاجرین کے قافلوں کا استقبال اور ان کی آباد کاری میں آل انڈیا مسلم لیگ کے کارکنوں اور محبان پاکستان نے جو کردار ادا کیا اس پر رشک واعجاز کے کئی مینار تعمیر کئے جاسکتے ہیں، یہ وہ جذبے تھے جنہوں نے نوزائیدہ مملکت کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے میں مدد دی۔ ہندوستان کے متعصب لیڈر کہا کرتے تھے کہ جس پاکستان پر جناح فجر کررہے ہیں اس کی عمر چار پانچ برس ہے یعنی کچھ عرصے بعد پاکستان دوبارہ ہندوستان کی جھولی میں آگریگا۔ ہندوستانی رہنماوں کی یہ خواہش حسرت رہی اور رہے گی!! قائداعظم کے پاکستان پر اللہ کا کرم ہے اوران شاء اللہ یہ آزاد وطن فیضان الہٰی کے سایے میں ہی رہے گا افسوس ہم خود پاکستان کی حفاظت نہ کرسکے۔ 1965 میں بھارت کی جارحیت اور پاکستان پر اچانک حملے کو پاک افواج اور قوم نے جس دلیری اور زندہ دلی سے پسپا کیا وہ قیمتی اور سچے جذبے ہمارا سرمایہ تھے افسوس ہماری آپس کی ناانصافی' ناچاکی اور انتشاری سیاست نے ان جذبوں اور یکجہتی کے دھاگوں کوتوڑ دیا۔ سیاست دانوں کی ایک دوسرے پر ''برتری'' کے خواب نے دشمن کو وار کرنے کا موقع دیا اور پھر بھارت نے اس انتشار اور بے کلی وبے چینی کا پورا فائدہ اٹھایا یوں 1971ءکا روح شکن سانحہ حقیقت بن کر سامنے آگیا!! ہمارے والد مرحوم ومغفور ڈاکٹر بشیر احمد گورایہ کہا کرتے تھے کہ اتحاد اور اخوت وہ طاقت ہے جس سے خاندان' سماج اور ملت اوج ثریا کو چھو لیتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے مسلمان قوم نے ترقی وخوشحالی اور حکمرانی کا یہ سفر طے کرکے دکھایا اور جب تعصب اور برتری کا زعم ظہور پڑیر ہو تو خاندان ' سماج اور ملت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ میں یہی سبق پنھاں ہے…بیرونی مداخلت اور اپنوں کی سیاسی فکر کی ناکامی کے سبب جناح و اقبال کے متحدہ پاکستان کی یہ وہ اذیت ناک تاریخ ہے جس سے قوم کو سبق حاصل کرنا چاہئیے۔ بھارت آج بھی ہماری سلامتی کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہے اور بین الاقوامی دنیا کو ڈِس انفارمیشن کے ذریعے پاکستان سے بدظن کرنے اور پاکستان کی ایٹمی قوت کو مفلوج بنانے کیلئے سازشوں میں مصروف عمل ہے۔ پاکستانی سیاسی قیادت کی یہ خوش فہمیاں کہ بھارت ہماری سلامتی کے خلاف نہیں ہے اس کا تعین بھی زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے ہی کرنا چاہئے کیونکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد سابق بھارتی وزیر اعظم مسز اندارا گاندہی کے تلخی سے بھرے بیانات کے بعد انکے پوتے راہول گاندہی کا 2007 میں یہ بیان کہ ان کے خاندان کو پاکستان توڑنے کا شرف حاصل ہے اور اگر انہیں پھر موقع ملا وہ پاکستان توڑنے سے گریز نہیں کریں گے جبکہ اِسی فکر کا اظہار بھارتی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے ایل کے ایڈوانی اور نریندرا مودی ماضی میں واضح طور پر کر چکے ہیں۔ ملک و قوم کو ایک ناقابل تسخیر قوت بنانے کے قومی جذبے کو جگانے اور پاکستان کی آزادی اور اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کیلئے نہ صرف ایمانی جوت جگانے کی ضرورت ہے بلکہ قائداعظم نے جس ناقابل یقین قومی یکجہتی کی بنیاد رکھی تھی ، اسکی جانب لوٹنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج بھی بھارتی ناپاک عزائم کے حوالے سے پاکستانی قوم اپنی بقا اور سلامتی کیلئے فکرمند ہے۔ اِس اَمر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے کہ ماضی میں سوویت یونین نے گرم پانیوں کی حامل مکران کوسٹ تک پہنچنے کیلئے وسط ایشیائی ریاستوں کو فتح کرتے ہوئے جب افغانستان میںاپنی فوجیں داخل کیں تو امریکہ نے خلیج کے ملکوں میں تیل کے مفادات کے پیش نظر افغان جہاد کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور روس کو افغانستان سے نکلنے اور سرد جنگ سے امریکہ کی خلاصی کے مفادت کے حصول کے بعد افغان جہادیوں کو نہ صرف عالم تنہائی میں چھوڑ دیا تھا بلکہ نائین الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد بھارت کو اپنا دفاعی اتحادی بنا لیا جس کی سرحدیں کسی طور بھی افغانستان سے نہیں ملتی ہیں چ۔بھارت اور اسرائیل کے ذریعے خطے میں پاکستان چین تعلقات کی گہرائی اور گیرائی کے حوالے سے گوادر سی پیک منصوبے کو اپنے گلوبل مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں خلیج کے ملکوں کے حکمرانوں پر سیاسی دباﺅ کا حربہ استعمال کرتے ہوئے عرب دنیا کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کیمطابق فلسطین کی خودمختار مملکت کے قیام کو پس پشت ڈالتے ہوئے اِن ملکوں کے اسرائیل کیساتھ سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم کرانے میں مگن ہے دوسری جانب چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت جسے پاکستان میں گوادر پورٹ کے حوالے سے سی پیک منصوبے کی کامیاب کاوش کے سبب مکران کوسٹ کے گرم پانیوں تک چین سے لیکر روس اور وسط ایشیائی ممالک تک اقتصادی رسائی کے حصول کے مملکن ہو جانے کے باعث بظاہر امریکی قیادت مشرق وسطیٰ میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے خلاف سمجھتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم آج بھی خود کو ایک دوسرے سے اعلی اور ایک دوسرے سے زیادہ اہل سمجھنے لگ گئے نتیجتا حالات ہمارے ہاتھ سے نکل گئے۔ ہم جب 1971ءکا آج کسے حالات سے موازانہ کرتے ہیں تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہم نے سانحہ مشرقی پاکستان سے کچھ سیکھا نہ سیکھنے کے موڈ میں ہیںَ!! آج بھی قومی سیاست تلخیوں اور الزام تراشیوں کی زد میں ہے اللہ کرے کوئی قائداعظم ثانی رہنما قوم کو میسر آ جائے جس کی برکت سے ملک و قوم درپیش بحرانوں سے نکل جائے!!

ای پیپر دی نیشن