ریاض ملک
چرواہے کی کہانی ہمارے لیے کوئی نئی نہیں ہے، ہمارے دیہاتوں میں اکثر بھیڑ بکریاں پالی جاتی ہیں، یہ حضور کی سنت بھی ہے اور منافع بخش کاروبار بھی۔ ہر سال موسم سرما کی برف باری سے پہلے پہلے کاغان ناران اور اس کے مضافات سے گڈریے اپنی بھیڑ بکریوں کو ہانک کر ہزارہ کے قدرے گرم مرطوب علاقوں میں لے آتے ہیں اور پھر موسم گرما کے آغاز میں اپنے آبائی علاقوں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔ آپ نے اکثر شمالی علاقوں سے ہجرت کرنے والے گڈریوں کو دیکھا ہو گا۔ جو سڑک کنارے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں شام پڑتی ہے یہ لوگ وہیں ڈیرا ڈال دیتے ہیں اور اگلی صبح پھر رخت سفر باندھ کر منزل کی طرف چل پڑتے ہیں۔ مصنف پاولو کوئیلہو ( Coelho Paulo) کے ناول دی الکیمسٹ ( Alchemist The) کی کہانی بھی اسپین کے ایک نوجوان چرواہے سینٹیاگو کے گرد گھومتی ہے جو ہماری روایتی کہانیوں سے ملتی جلتی ہے۔ بل کہ یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ یہ دیس دیس کی کہانی ہے یہی وجہ ہیکہ اس ناول نے کئی ریکارڈ اپنے نام کر دیئے ہیں۔ 2020 تک اس ناول کا تقریباً 80 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اس ناول کے کروڑوں نسخے فروخت ہو چکے ہیں یاد رہے کہ مصنف پاولو کوئلہو نے یہ ناول پرتگیزی زبان میں لکھا تھا اب تک کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ پروفیسر ملک ناصر داود نے انگریزی اور اردو دونوں ترجموں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا ہندکو ترجمہ کیا ہے۔ پاولو کا یہ ناول 1988 میں پبلیش ہوا جب کہ پروفیسر ملک ناصر داود نے 2023 میں اس کا ہندکو ترجمہ کیا۔ چرواہا سان تیا گو ایک خواب دیکھتا ہے جس میں وہ ایک بڑے میدان میں بھیڑیں چرا رہا ہوتا ہے کہ اسی اثنا میں ایک چھوٹا سا لڑکا آ کر اس کی بھیڑوں کے ساتھ کھیلتا ہے کافی دیر کھیلنے کے بعد وہ لڑکا اس کی طرف لپکتا ہے اور اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر اہرام مصر تک لے جاتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ آئے وہ اسے خزانے کا پتا بتاتا ہے۔ جیسے ہی وہ لڑکا سانتیاگو کو خزانے کے پاس لے کر جاتا ہے تو اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ اس خواب کی تعبیر جاننے کے لیے ایک تعبیر بتانے والی عورت کے پاس جا کر اپنا خواب سناتا ہے وہ عورت اس شرط پر خواب کی تعبیر بتاتی ہے کہ خزانے کا دسواں حصہ اس کا ہوگا سانتیاگو اس کی شرط فوراً مان لیتا ہے اس پر عورت اسے بتاتی ہے، اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تیرے ہاتھ بہت بڑا خزانہ لگنے والا ہے۔ اس خزانے کے حصول کے لیے اسے فوراً مصر روانہ ہونا ہے۔ اہرام مصر کے سائے میں خزانہ دفن ہے وہاں تک تم خود اپنی مدد آپ پہنچو گے۔ پھر وہ مصر کا سفر شروع کرتا راستے میں اسے ہر قدم پر ایک نئی مشکل پیش آتی ہے اس سفر میں ڈاکو اسے لوٹتے بھی ہیں ایک یورپین سیاح کے سنگ صحرا عبور کرتا ہے صحرا کے سفر کے دوران اسے ایک لڑکی ملتی ہے جس سے اسے محبت ہو جاتی ہے اس خواب کی تعبیر کے مطابق خزانہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسے بادشاہ بھی ملتا ہیاور ٹھگ بھی، برتن بھیچنے والا بھی اور جھونپڑیوں والی مائی بھی، کیمیا گر بھی اور ایک بوڑھا بھی، آخر کار Alchemist The کیمیا گر اسے سفر میں پیش انے والی مصیبتوں سے نجات دلاتے ہوئے منزل تک پہنچانے میں مدد کرتا ہے۔ اس طرح وہ اہرام مصر تک پہنچ جاتا ہے کیمیا گر کی نشان دہی پر وہ خزانے کے حصول کے لیے کھدائی کرتا ہے لیکن اسے خزانے کا سراغ نہیں ملتا۔ جب یہ ناکام ہو جاتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ ارد گرد کی ہر شے بل کہ اہرام مصر بھی اس کی ناکامی کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ یہ ہمت نہیں ہارتا وہاں سے واپسی کی راہ لیتے ہوئے شام سے پہلے پہلے وہ ہسپانیہ کے گرجے پہنچ جاتا ہے جہاں سانتیاگو پہلے بھی ایک رات گزار چکا تھا رات کو وہاں ہی سو جاتا ہے صبح اٹھتے ہی اس کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ کیوں ناں وہ اس چنار کے نیچے سے زمین کھودے اس کا دل کہتا ہے کہ یہاں کچھ نہ کچھ ضرور ہے اور پھر وہ زمین کھودنی شروع کر دیتا ہے کچھ ہی دیر بعد اس کا بیلچہ کسی ٹھوس چیز سے ٹکراتا ہے وہ جلدی سے وہاں سے مٹی ہٹاتا ہے تو نیچے سے ایک صندوق نکل آتا ہے جب وہ اسے کھولتا ہے تو خوشی سے اس کی باچھیں کھل اٹھتی ہیں، صندوق سونے کے سکوں، ہیرے موتی، جوہرات اور سونے کی مورتیوں سے بھرا پڑا ہے۔ خزانہ ملنے کے بعد اسے اپنی محبوبہ کا خیال آتا ہے وہ نخلستان کی طرف منہ کر کے کہتا ہے "فاطمہ میں آ رہا ہوں" یہاں پر کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس کہانی کے ذریعے خوبصورت پیغام دیا گیا ہے "جب آپ کسی شے کے حصول کا ارادہ کرتے ہیں تو ساری کائنات آپ کی مدد کو آ جاتی ہے" اس ناول سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ اس خزانے کی طرح عزت شہرت اور مقام آسانی سے نہیں ملتا بل کہ اسے حاصل کرنے کے لیے سچی لگن، محنت شاقہ اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے اور جب آپ نیک نیتی سے کچھ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو پھر خدا کی مدد بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔ پروفیسر ملک ناصر داود کو ہندکو سے اتنا ہی پیار ہے جتنا ماں بولی زبان سے محبت کرنے والے کو ہونا چاہیے ان کی دیگر ہندکو تصانیف ان کی ہندکو زبان سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، ہندکو اخبار ہندکوان میں " سویل" کے عنوان سے متواتر کالم بھی لکھتے ہیں اور ہندکو رسالہ سرگی دا تارہ کے مدیر بھی ہیں۔ ہندکو تصانیف پر رائٹرز گلڈ ایوارڈ، اباسین ادبی ایوارڈ اور صدارتی ایوارڈ کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اسی طرح پروفیسر ملک ناصر داود نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس شہرہ آفاق ناول کا ہندکو زبان میں ترجمہ کیا ہے، پروفیسر صاحب نے اپنی ماں بولی زبان میں ترجمہ کرتے وقت اس کی رہتل، تہذیب و تمدن، معاشرت، ثقافت اور زبان و بیان کو مدنظر رکھا ہے ترجمہ کرتے وقت زبان و بیان کے فنی محاسن اور جمالیاتی حسن کا بھی خوب خیال رکھا ہے۔ بہترین سے بہترین الفاظ کا چناو اور ہندکو زبان کے لب و لہجے کی خوب صورتی کو قائم رکھ کر پروفیسر صاحب نے اپنی فنی اور ادبی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے اس سے بڑھ کر ہندکو کی ترقی وترویج کے لیے لکھنے والوں کے لیے ایک نئی راہ متعین کر دی ہے۔ دعا ہے کہ پروفیسر صاحب اسی طرح ہندکو زبان و ادب کے لیے نئی راہیں متعین کرتے رہیں۔ تا کہ ہم ان کی ادبی صلاحیتوں سے مستفید ہوتے رہیں۔