پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح خاندانی شخصی جان نشینی اور اقربا پروری کی سیاست کے سخت خلاف تھے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈروں نے ان کو تاحیات صدر بنانے کی خواہش کی ۔ انہوں نے اپنے رفقاءکی اس خواہش کو مسترد کر دیا اور ہر سال اپنی کارکردگی کی بنیاد پر آل انڈیا مسلم لیگ کی پرائمری لیگوں سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں کسی شخص کو بھی اپنا سیاسی جانشین نامزد نہ کیا ۔ جب انہوں نے قیام پاکستان کا قومی مقصد حاصل کر لیا تو انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس بلا کر پاکستان مسلم لیگ کی صدارت خلیق الزماں کے حوالے کر دی ۔ اقربا پروری کے وہ اس قدر خلاف تھے کہ انہوں نے اپنی عظیم بہن محترمہ فاطمہ جناح کو سیاسی اور حکومتی منصب دینے سے انکار کر دیا حالانکہ محترمہ فاطمہ جناح کا استحقاق تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی وفاقی کابینہ میں خواتین کی نمائندگی کرتیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے دوسرے بڑے مقبول عوامی اور جمہوری لیڈر تھے ۔ 1968ءسے 1970ءتک ان پر آٹھ قاتلانہ حملے کیے گئے ۔ ان حملوں کے پیش نظر انہوں نے ملک مصطفی کھر اور معراج محمد خان دونوں کو اپنا سیاسی جانشین نامزد کر دیا ۔ البتہ یہ دونوں لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ چھوڑ گئے ۔ انقلابی لیڈر معراج محمد خان نے اصولوں کی بنیاد پر پی پی پی سے علیحدگی اختیار کی جبکہ مصطفی کھر نے جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے بعد ذاتی مصلحتوں کے تحت پارٹی کو چھوڑ دیا ۔ 1977ءمیں جب جنرل ضیاءالحق نے پاکستان پر مارشل لا مسلط کر دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو قید کر لیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے نظر بندی سے عارضی رہائی کے دوران سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلا کر وائس چیئرمین پی پی پی بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کو قائم مقام چیئرمین نامزد کر دیا ۔ پی پی پی کے جاگیردار اور مذہبی لیڈروں نے شیخ محمد رشید کو قائم مقام چیئرمین تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی یہ خواہش تھی کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے بڑے جاگیردار غلام مصطفی جتوئی پارٹی کی قیادت سنبھال لیں مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی ۔ شیخ محمد رشید نے جیل میں قید ذوالفقار علی بھٹو کو پیغام بھیجا کہ بیگم نصرت بھٹو کو قائم مقام چیئرمین بنا دیا جائے تاکہ پی پی پی متحد رہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پیغام بھجوایا کہ میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ بیگم نصرت بھٹو قائم مقام چیئرمین بن جائیں یہ فیصلہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے کرنا ہے ۔ پی پی پی کے اکثر رہنما سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو گئے اور سیاست میں قیادت کا خلاءپیدا ہو گیا ۔ اس خلاءکو محترمہ بے نظیر بھٹو نے پر کیا اور جنرل ضیاءالحق کے خلاف زبردست سرگرم اور پرجوش کردار ادا کیا ۔ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے ان کو پہلے شریک چیئرپرسن اور بعد میں چیئرپرسن نامزد کر دیا ۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد میاں نواز شریف کو مختلف مقدمات میں گرفتار کر لیا۔ اس موقع پر بھی مسلم لیگ کے اکثر مرکزی لیڈر سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو گئے ۔ بیگم کلثوم نواز نے بڑی جرات اور بہادری کے ساتھ قیادت کے اس خلاءکو پر کیا ۔ مسلم لیگ کے لیڈروں اور کارکنوں نے ان کی قیادت کو تسلیم کر لیا ۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمران خان کو جب سے قید کیا گیا ہے وہ تنظیمی اور سیاسی مشکلات کا شکار ہیں اور اب تک وہ کئی تجربات کر چکے ہیں جو ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔ ان مشکلات کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کو کبھی یونین کونسل کی سطح پر منظم ہی نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستان کے سیاسی کارکن تنظیم سازی کی طاقت اور اہمیت سے آشنا ہیں ۔ سیاسی جماعتوں میں تنظیم سازی اور اندرونی جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے شخصیت پرستی کا کلچر پروان چڑھا ہے ۔ عمران خان کئی بار اس خوف کا اظہار کر چکے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے ۔ ان لاحق خطرات کے باوجود انہوں نے ابھی تک اپنا کوئی سیاسی جانشین نامزد نہیں کیا ۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان نے اپنے بھائی کی رہائی کے لیے پر خلوص پرجوش کوششیں کی ہیں ان کوششوں کے دوران ان کے تحریک انصاف کے کارکنوں سے رابطے بھی ہوئے اور وہ میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہی ہیں ۔ ان کی ان سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عمران خان کی سیاسی جانشین بننے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں ۔ علیمہ خان متوازن اور دانشمندانہ گفتگو کرنے کا سلیقہ رکھتی ہیں ۔ تحریک انصاف کے کارکنان ان کی قیادت پر آمادہ ہو سکتے ہیں ۔
24 نومبر سے 26 نومبر تک ڈی چوک اسلام آباد کے احتجاجی دھرنے کی تحریک کے دوران بشری بی بی متبادل لیڈر کے طور پر منظر عام پر آئی ہیں ۔ اس سے پہلے انہوں نے کبھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔ انہوں نے دلیری کے ساتھ خیبر پختون خواہ سے اسلام آباد تک کارکنوں کی ریلی کو لیڈ کیا اور ڈی چوک اسلام آباد پر آپریشن کے باوجود رات کے ساڑھے 12 بجے تک ڈٹی رہیں ۔ بشری بی بی نے تحریک انصاف چارسدہ کے دو نوجوان شہداءکے گھروں پر جا کر ان کے عزیز و اقارب کے ساتھ فاتحہ خوانی کی اور ایک ایک کروڑ روپے کے چیک انکے خاندانوں کو پیش کیے۔ ان کے اس اقدام سے تحریک انصاف کے کارکنوں کو بڑا حوصلہ ملا ۔ اس موقع پر انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھاگنے والی عورت نہیں ہیں اور وہ ڈی چوک پر اپنی کار میں رات کے ساڑھے 12 بجے تک موجود رہیں جبکہ تحریک انصاف کے دوسرے رہنما ان کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے۔
بشریٰ بی بی کے عمران خان کے ساتھ دو رشتے ہیں پہلا رشتہ مرشد کا ہے اور دوسرا رشتہ ان کی زوجہ ہونے کا ہے ۔ عمران خان کو اپنی بہن علیمہ خان اور اپنی بیگم بشریٰ بی بی میں سے کسی ایک کا اپنے جانشین کے طور پر انتخاب کرنا پڑیگا۔ کیونکہ اس کے بغیر تحریک انصاف کو متحد اور فعال رکھنا ممکن نہیں ہوگا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بشریٰ بی بی نے غیر اعلانیہ طور پر عمران خان کی آشیرباد کے ساتھ تحریک انصاف کا سیاسی کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اگر ان کو کسی اور مقدمے میں گرفتار نہ کیا گیا تو بشریٰ بی بی کی پارٹی پر بالادستی روز بروز مستحکم اور مضبوط ہوتی جائے گی ۔ تحریک انصاف کے تمام لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کو ان کی قیادت کو تسلیم کرنا پڑے گا البتہ ان کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے سیاسی تربیت کی ضرورت ہے ۔ پی پی کی طرح تحریک انصاف کو بھی غیر قانونی غیر جمہوری غیر سیاسی ہتھکنڈوں اور حربوں سے ختم کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ اگر عمران خان کو جسمانی طور پر سیاسی منظر سے ہٹایا گیا تو تحریک انصاف عوام کی نظروں میں اور زیادہ مقبول ہو جائے گی ۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ خواہش ہوگی کہ تحریک انصاف کی قیادت بشریٰ بی بی کے ہاتھوں میں آ جائے کیونکہ انکے خاندان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے پرانے روابط ہیں ۔ خاندان کے کسی فرد کو جانشین بنانے سے خاندانی سیاست کا الزام تو آئے گا مگر مسئلہ یہ ہے پاکستان میں کسی اور لیڈر کی قیادت تسلیم کرنے پر عوام آمادہ نہیں ہوتے۔ جنوبی ایشیا میں جمہوری کلچر کے فقدان کی وجہ سے شخصیت پرستی اور خاندانی سیاست جڑ پکڑ چکی ہے جسے صرف اجتماعی قیادت اور مشاورت کے اصول پر عوامی جمہوری انقلاب کے ذریعے ہی پلٹا جا سکتا ہے ۔ پرانے ناکام سیاسی تجربات کو بار بار دہرانا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ اس طرح کے ملک دشمن اور عوام دشمن سیاسی تجربات سے پاکستان کی ریاست اور ادارے دونوں متاثر ہو رہے ہیں اور مسلسل زوال پذیر ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہمارا احساس زیاں بھی ختم ہو چکا ہے ۔ ہم ڈنگ ٹپاو اور حال مست کی پالیسی پر گامزن ہیں اور مستقبل کی ہمیں کوئی فکر نہیں ہے ۔