بے بس سیاستدان

Dec 11, 2024

میاں حبیب

یہ تصدیق شدہ امر ہے کہ پائیدار حکومت وہی ہوتی ہے جسے عوام کی مکمل حمایت حاصل ہو۔ قابض حکمران عوام کے دلوں پر بوجھ ہوتے ہیں اور وہ موقع ملنے پر یہ بوجھ اتار پھینکتے ہیں۔ حکمران اچھی حکمرانی عدل وانصاف اور میرٹ کی بالادستی سے عوام کے دل جیتتے ہیں جبکہ لیڈر شپ قوموں کو راستہ دکھاتی ہے۔ وہ بہتری کے لیے لوگوں کی ذہنی آبیاری کرتی ہے۔ لیڈر شپ درست فیصلوں کے ساتھ قوموں کا بیڑہ پار لگا دیتی ہے اور غلط فیصلوں سے قوموں کا بیڑہ غرق کر دیتی ہے۔ لیڈر شپ اور رہنما رہنمائی فرماتے ہیں۔ اچھی لیڈر شپ ہرقسم کے حالات سے بہتری کی راہ نکالنے کا فن جانتی ہے لیکن پاکستان کے سیاستدان ہمیں بڑے بے بس، لاچار اور لیڈر شپ کوالٹی سے بے بہرہ دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری قیادتیں قوم کو راستہ دکھانے کی بجائے بھٹکانے پر لگی ہوئی ہیں۔ یہ بہتری کا دروازہ دکھانے کی بجائے ڈیڈ لاک کی طرف لیجانے کا کام کر رہے ہیں۔ ویسے تو موجودہ حالات میں پوری قوم ہی بے بس دکھائی دیتی ہے لیکن سیاستدان تو بہت ہی لاچار معلوم ہوتے ہیں جو ہر آنے والے دن کے ساتھ مسائل میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر آپ باریک بینی سے جائزہ لیں تو ان میں سے کس کس کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا لیکن نہ یہ خود سمجھتے ہیں نہ قوم کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ایک کو گرانے کے لیے سارے اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ جب وہ گر جاتاہے تو پھر خود اسی گرداب میں پھنس جاتے ہیں۔ پھر دوسرے اس کو گرانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ دوزخ میں مختلف قوموں کے کنویں تھے اور ہر کنویں پر چوکیدار کھڑا تھا تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے ایک کنویں پر کوئی اہلکار نہ تھا کسی نے پوچھا کہ اس پر کسی کی ڈیوٹی نہیں؟ اسے بتایا گیا کہ یہاں ڈیوٹی کی ضرورت نہیں، یہ پاکستانیوں کا کنواں ہے یہ خود ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں اس لیے یہاں سے فرار ہونے کا کوئی خدشہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی طاقت پکڑی تو تمام لوگ اس کے خلاف اکھٹے ہو گئے اور پھر اس کو پھانسی کی پھندے تک چھوڑ کر آئے۔ بےنظیر عوامی طاقت بننے لگیں تو ان کو گولیوں سے اڑا دیا گیا۔ نواز شریف عوامی طاقت بنے تو انہیں مکھن میں سے بال کی طرح نکال باہر کیا گیا اور پھر کیا کچھ نہیں ہوا۔ جب عمران خان نے مایوس قوم کو امید دلانے کے نام پر اکھٹا کرنا شروع کیا تو اس کا بوریا بستر گول کر دیا اور اب کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کو بلکل ختم کر دیا جائے۔ ہر کوئی دوسرے کا راستہ بند کرنے کے لیے اپنی خدمات دینے کے لیے تیار ہوتا ہے یہ کیسے سیاستدان ہیں جو راستے نکالنے کی بجائے راستے بند کر رہے ہیں ملک میں پچھلے اڑھائی سال سے ڈیڈ لاک برقرار ہے لیکن سیاستدانوں کے پاس اس ڈیڈ لاک سے نکلنے کا کوئی حل موجود نہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے سب کو جکڑ دیا گیا ہے ان کے سروں پر پہرے ہیں اور سب ایک دائرے میں کنویں کے گرد چکر لگا رہے جب آپ دائروں میں سفر کریں گے تو سفر کیسے کٹ سکتا ہے۔ جب آپ کو منزل کا ہی پتہ نہ ہو تو آپ بے شک جتنی مرضی رفتار کے ساتھ سوسال تک بھی دائرے میں دوڑتے رہیں آپ منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔
 بظاہر ہم سب بڑی سپیڈیں مار رہے ہیں لیکن حقیقت میں ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ پاکستان میں سیاست گالی بن کر رہ گئی ہے ظلم کی انتہا دیکھیں جن دانشوروں نے حوصلہ دینا تھا وہ کہہ رہے ہیں یہاں تو معاملات ایسے ہی چلنے ہیں جس کا دل کرتا ہے یہاں رہے جس کا دل کرتا ہے یہاں سے چلا جائے جس کے پاس وسائل ہیں وہ ملک سے بھاگ رہا ہے اور بےحسی اتنی غالب آ چکی ہے کہ نہ کوئی جانے والوں کو روک رہا ہے نہ حوصلہ دے رہا ہے بلکہ ہر کوئی دوسرے کو مشورہ دے رہا ہے اس ملک میں کچھ نہیں پڑا بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاو۔ اس ملک کا دانشور جب یہ دلیل دے کر ناانصافی اور زیادتی کو جسٹیفائی کر رہا ہو کہ کون جیل نہیں گیا،کس کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی، ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو کیا ہو گیا، پہلوں نے بھی تو برداشت کیا تھا ان کو بھی چاہیے کہ چپ کرکے برداشت کریں۔ کس سے حکومت نہیں چھینی گئی، ان سے چھن گئی ہے تو کیا ہوا۔ کس کا میڈیٹ ڈسٹرب نہیں ہوا۔ آج اگر کسی کا ہو گیا ہے تو کون سی قیامت آ گئی ہے۔ حوصلے کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے اور اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیے، دوبارہ باری آ جائے گی۔ جہاں یہ قول مشہور ہوں کہ پتر کیلے سے پھسلنے اور اور پولیس کی مار کا برا نہیں مناتے، وہاں پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ پاکستان میں بے بس سیاستدان ہی نہیں سارا سماج بےبس ہے۔ ہر کوئی سمجھوتوں کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے اور آواز بلند کرنے والے کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے کہ خاموش رہو وقت بدلنے کا انتظار کرو۔ یاد رہے اس قوم کی کبھی حالت نہیں بدلتی جس کو اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو۔ آگے آپ کی مرضی۔

مزیدخبریں