مجھے فخر ہے کہ میرا تعلق صحافت کے اس قبیلے سے ہے جسکی امامت مجید نظامی جیسے مسیحا نے فرمائی۔ مجھے ناز ہے کہ میں اس سکول آف تھاٹ کا فالور ہوں جسکا ایمان پاکستان کی سالمیت سے جڑا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب بھی اس خاکسار نے یہ دیکھا اور محسوس کیا کہ کوئی بھی گروہ، جماعت ، جتھہ یا اسکا کوئی بھی عمل میرے ملک، میرے وطن کو نقصان پہنچا رہا ہے یا پہنچا سکتا ہے تو پھر اسی درس جسکا پرچار ساری عمر مرشد مجید نظامی کا شیوہ رہا، کی پیروی کرتے یہ خاکسار بغیر کسی لکا چھپی تمام حقیقتیں اپنے قارئین کے سامنے رکھتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں اللہ کے بعد اگر کوئی بہترین جج ہو سکتا ہے تو وہ وہاں کے ملک کے عوام ہوتیے ہیں۔ جبکہ اسکے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ عوام بھی کسی بات کو اس وقت ہی صحیح جج کر سکتے ہیں جب تمام حقائق ان کے سامنے موجود ہوں۔
کالم کی ابتداءمیں ان عوامل یا حقیقتوں کی طرف نہیں جاتا جو 1971ءمیں مشرقی پاکستان کے پاکستان سے علیحدگی کا سبب بنیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اتنے بڑے سانحہ کے باوجود مجموعی سطح پر اس ملک کی سیاسی اشرافیہ بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی نہ صرف اس سے کوئی سبق حاصل نہ کرنے جیسے گناہ کبیرا کی مرتکب ہی نہیں ہوئی بلکہ معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل پر کوئی سیر حاصل گفتگو اور انکا حل نکالنے کی بجائے ایک دفعہ پھر انہی علاقائی اور لسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آئی جو دراصل پاکستان ٹوٹنے کا اصل سبب بنے تھے۔ راقم یہاں پر 1971ءکے بعد نہ ان شورشوں اور نہ ہی اس بلیم گیم یا اس سے جڑے کرداروں کا ذکر کرنا چاہتا ہے جنکی وجہ سے ستر اور اسیّ کی نصف دہائی میں ملک کے دو صوبوں اس وقت کے شمال سرحدی اور بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ ہوا اور آگے چل کر پھر ایک سیاسی پارٹی پر پابندی بھی لگی جبکہ انہی دنوں سندھ میں بھی لسانی فسادات اور سندھو دیش کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ لیکن راقم یہاں پر اس نفرت کو ضرور ہائی لائٹ کرنا چاہے گا جو اس عمل کے ذریعہ خاصکر ان دو صوبوں سرحد اور بلوچستان کے عوام کے دلوں میں ابھری۔ اس وقت کے زمینی حقائق اور تاریخ کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اس وقت کے اس بحران سے ایک حقیقت واضع ہوتی ہے کہ اس وقت بحران کا کوئی بھی فریق وہاں کی مقامی آبادی کے حقوق یا انکی بھلائی کی جنگ نہیں لڑ رہا تھا بلکہ حقوق کی جنگ کا بیانیہ صرف اور صرف شخصی اقتدار اور اسے مضبوط کرنے کا ایک شعبدہ تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان علاقائی اور لسانی حقوق کی آڑ میں شخصی اقتدار اور مفادات کے حصول کے اس کھلواڑ کو عوام کو کس نظر سے دیکھنا چاہیئے، یہی وہ ایک المیہ ہے جسکی طرف دانش کدہ کے مکینوں سمیت ہم میں سے کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ آپ جتنی مرضی مضبوط میڈیا کمپئین کا سہارا لے لیں تاریخی حقائق سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ تاریخ کے بند کواڑ کھولیں تو پتا چلتا ہے کہ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ میں بھٹو کی پھانسی کو لیکر لسانی بنیادوں پر نفرت کی لہر ابھری لیکن ممتاز بھٹو کی تمام تر کوششوں کے باوجود نصرت بھٹو اور بینظیر اس وقت پاکستان دشمنی کی کمپئین پر راضی نہ ہوئیں حالانکہ جی ایم سید بھی انھیں پوری طرح کندھا دینے کو تیار تھا۔ اسے اس وقت بینظیر کی معاملہ شناسی کہیں یا دور اندیشی کہ اس نے اس وقت پاکستان سے نفرت کو پروان چڑھنے نہ دیا بلکہ اس نے سندھ کے عوام کے دلوں میں پیدا کردہ جذبات کو ایک سسٹم کے خلاف ایم آر ڈی کی شکل میں ایک مثبت سٹرگل کی طرف موڑ دیا۔ لیکن اسی کے ساتھ دوسری طرف دیکھیں انہی دنوں ایک ڈکٹیٹر ضیاءنے شخصی مفاد کے حصول کیلیئے صرف پیپلز پارٹی کو ٹارگٹ کرنے کیلئے لسانی بنیادوں پر ایم کیو ایم کو کھڑا کر دیا اور ایک ایسی خلیج کو جنم دیا جس میں لاکھوں جانوں اربوں کے وسائل کے ضیاع کے ساتھ پوری ایک تہذیب سمندر برد ہو گئی۔ فرد واحد کے فیصلے اور غیر جمہوری روئیے اور سوچ کس طرح ملکوں کو تباہ کرتی ہے اسکا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ 80ءکی دہائی کی شروعات میں اس وقت کے زمینی حقائق پر ایک نظر ڈال لیں۔ کہتے ہیں دنیا میں ایک بیروت اور ایک کراچی مشہور تھے جو دنیا کے تمام سرمایہ کاروں کی توجہ کے مرکز بننے جا رہے تھے۔ یہ سنگاپور، ہانگ کانگ، بنکاک، دبئی وغیرہ کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا کہ وہ بھی دنیا کی توجہ کا مرکز بنیں گے لیکن یہ وقت کا ستم یا جبر نہیں تھا کہ بیروت کو اسرائیل اور وہاں کی لوکل کمپنیوں کی باہمی لڑائی نے اور ہمارے کراچی کو ایک فرد واحد ڈکٹیٹر کی غلط پالیسی اور سوچ نے اسطرح تباہ و برباد کر کے رکھ دیا کہ ہم اب لاکھ انفرادی کوششیں کر لیں جب تک اجتماعی سطح پر ان نفرتوں کو زائل کرنے کے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے کسی بھی بہتری کی امید دیوانے کے ایک خواب یا سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان تمام حقائق کو آپکے سامنے رکھنے کا راقم کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ کسی پارٹی کو دیوتاو¿ں کے گھرانے کے طور پر پیش کیا جائے بلکہ یہ خاکسار آپکے سامنے یہ رکھنا چاہتا ہے کہ کس طرح چند افراد حالات کو مینج کر کے عوام کے دلوں میں نفرت کے جذبات کو ابھارتے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ افراد اگر ملک کی بہتری میں سلگتے مسائل پر پانی ڈال کر انھیں ٹھنڈا کرنا چاہیں تو وہ کیسے کر سکتے ہیں۔ لسانیت کی بنیاد پر تو یہ خاکسار وہ نعرہ بھی نہیں بھولا کہ “ جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ” لیکن ایک دفعہ پھر یہ خاکسار آپکو ماضی میں لیئے چلتا ہے۔(جاری ہے)۔
سلگتی چنگاریاں
Dec 11, 2024