لاکھوں ڈالر بیرون ملک منتقلی پر  چیئرمین نیب کی تشویش

نیشنل اکاﺅنٹیبلٹی بیورو (نیب) ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں انسداد بدعنوانی کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی تقریب ہوئی جس کی صدارت چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد نے کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ بدعنوانی کسی بھی شکل میں پائیدار ترقی اور معاشی خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نیب نے صرف ایک سال کے دوران3800 ارب روپے یعنی 13.57 بلین امریکی ڈالر کی برآمدکرا کے ایک ریکارڈ قائم کیا۔ اسی طرح نیب نے 22 ہزار درخواستیں نمٹائی ہیں۔ اصلاحات کے نتیجے میں جھوٹی شکایات کے اندراج کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور ان شکایات کی تعداد 4000 ماہانہ سے کم ہو کر صرف400 رہ گئی ہیں۔ اٹھارہ ہزار سے زائد متاثرہ افراد کو ان کی لوٹی ہوئی رقوم واپس دلائی گئی ہیں۔ ترقی یافتہ ملک سرمایہ کاری کے عوض رہائش اور ویزے دے رہے ہیں۔ پاکستانی پانچ پانچ، دس دس لاکھ ڈالر لے کر باہر جا رہے ہیں۔ گزشتہ سال بارہ لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہوئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کے پاس یہ رقم کہاں سے آئی؟ کیونکہ اکثر یہاں ٹیکس پیڈ بھی نہیں ہوتے۔ دیکھا جائے کہ باہر جانے والے رقم قانونی بنکنگ چینل سے لے کر آرہے ہیں یا مشکوک طریقے سے؟ 
خصوصی تقریب میں چیئرمین نیب نے اپنی کارکردگی کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی وہ قابل ستائش ہے۔ انہوں نے لاکھوں ڈالر باہر لے جانے کے حوالے سے سوال اٹھایا ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئی‘ یہ قانونی بینکنگ کے ذریعے سے لے جائی جا رہی ہے یا مشکوک طریقے سے‘ اسکی جامع تحقیقات کرنا نیب ہی ذمہ داری ہے۔ نیب احتساب کا ایک آئینی خودمختار ادارہ ہے جو ملک میں کرپشن کے تدارک کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ اسکے علاوہ معاشی دہشت گردی اور مالیاتی جرائم کیخلاف کارروائی عمل میں لانا اور اسکی روک تھام کا اختیار بھی اسے حاصل ہے چنانچہ ڈالروں کی غیرقانونی ترسیل‘ سمگلنگ اور منی لانڈرنگ میں چاہے پاکستان کا عام شہری ملوث ہو یا بااثر شخصیت‘ اس کیخلاف گھیرا تنگ کرنا اور اسے شکنجے میں لانا نیب ہی کے فرائض میں شامل ہے۔ چیئرمین نیب کا یہ انکشاف حکومت بالخصوص وزیراعظم شہبازشریف کیلئے تشویشناک ہونا چاہیے جو بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کوشاں ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے سرمایہ کاری کے عوض رہائش اور ویزے ملنے کی سہولت پر گزشتہ ایک سال کے دوران 12لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہو گئے ہیں۔ بادی النظر میں اسکی سب سے بڑی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ گزشتہ چند سال سے ملک جس افراتفری اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے‘ یہاں کا تاجر اور صنعت کار طبقہ ان حالات سے مایوس ہو چکا ہے جبکہ نوجوان نسل کو بھی اپنے بہتر مستقبل کے حوالے سے کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ اگر ملک میں سرمایہ کاری اور کاروبار کیلئے سہولیات میسر ہوں ‘ سیاسی اور امن و امان کی سازگار فضا قائم ہو تو کسی پاکستانی کو وطن چھوڑ کر دوسرے ملک منتقل ہونے کی مجبوری لاحق نہ ہو

ای پیپر دی نیشن