بشارالاسد فرار ہو کر روس پہنچ گئے‘ صدارتی دفاتر اور محل میں عوام کی لوٹ مار۔
بے وفا امریکہ کے برعکس روس پر ایشیائی اثرات کافی ہیں اس لئے وہ کسی حد تک وفاداری بشرط استواری کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ یہی دیکھ کر شام کے مرد آہن کہلانے والے صدر بشارالاسد جسے اپنے ملک میں رہنے اور جان بچانے کیلئے جگہ نہ مل سکی‘ اسے اسکے گھر والوں سمیت پناہ دیدی ہے۔ بشاالاسد اور اسکے گھر والے دمشق سے جان بچا کر ماسکو پہنچ گئے۔ انکے بھاگتے ہی مجاہدین اور عوام نے انکے مجسمے توڑ ڈالے‘ تصاویر جلا دیں اور صدارتی محلات میں گھس کر سب کچھ لوٹ لیا۔ کوئی کرسی لے گیا‘ کوئی ٹیبل‘ کوئی صوفہ‘ کوئی اے سی‘ کوئی پردے تو کوئی قالین۔ جس کے ہاتھ جو لگا لے اڑا۔ یوں روس نے اپنے وفادار کو تنہاءنہیں چھوڑا۔ اسکے برعکس دیکھ لیں امریکہ نے اپنے وفاداروں کو آخر میں بے یارو مددگار مرنے کیلئے چھوڑ دیا۔ شہنشاہ ایران کو مصر والوں نے پناہ دی‘ ورنہ امریکہ انہیں پناہ دیکر دوستی کا حق ادا کر سکتا تھا۔ مگر نہیں کیا۔ اس لئے امریکہ کے اکثر دوست اس سے شاکی ہیں اور سرعام :
ہم باوفا تھے اس لئے نظروں سے گر گئے
شاید انہیں تلاش کسی بے وفا کی تھی
کا شکوہ لبوں پر لاتے نظر آتے ہیں۔ یہ امریکہ کی پرانی عادت ہے کہ وہ اپنوں کو مشکلات میں گھرا دیکھ کر ان سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ 1971ءکی جنگ اور افغانستان کی خانہ جنگی میں ہمارے ساتھ بھی اس نے ایسا ہی کیا۔ کل تک کے مجاہدین کو دہشت گرد بنا کر پاکستان کی امداد سے بھی ہاتھ کھینچ گیا۔ یوں افغان مجاہدین ہمارے خلاف ہو گئے کہ انکے نزدیک اسکے ذمہ دار ہم ہیں۔ اسکے برعکس روس دیکھ لیں‘ ابھی تک ہمارے دشمن بھارت کے ساتھ یاری نبھا رہا ہے۔ اگرچہ پہلے سی گرمجوشی نہ سہی‘ مگر بھارت اور امریکہ کے جاری ہنی مون کے باوجود اسکی مدد کرتا رہتا ہے۔ شکر ہے اب پاکستان کے بھی روس سے تعلقات میں بہتری آرہی ہے‘ افغان وار کی وجہ سے جو تلخی تھی وہ کم ہوتی جا رہی ہے۔
ہمارے کپتان کو خیبر پی کے میں رکھا جائے‘ علی امین گنڈاپور۔
وزیراعلیٰ خیبر پی کے کی اس خواہش پر ہمیں بے ساختہ چچا غالب کا پرانا گھسٹا پٹا بھی کہہ سکتے ہیں‘ شعر یاد آگیا:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
اب ضروری تو نہیں ہم جو چاہتے ہیں‘ جس کی ہمیں خواہش ہے وہ چیز ممکن بھی ہو۔ اب یہ خواہش نئی تو ہوگی نہیں‘ نجانے کب سے گنڈاپور کے دل میں مچل رہی ہوگی مگر زبان پر اب آئی ہے۔ اب وزیراعلیٰ خیبر پی کے اتنے بھی بھولے بادشاہ نہیں ہیں کہ ان کو علم نہ ہو کہ ایسا ہونا ممکن ہی نہیں۔ مگر دل پشوری کرنے کیلئے ایسا سوچنا اور کہنا منع بھی نہیں ہے۔ مگر وہ جانتے ہیں کہ اگر قیدی کو اڈیالہ سے پشاور جیل منتقل کیا گیا تو عوام کو کون روکے گا۔ یوں نہ جیل بچے گی نہ اس میں موجود قیدی کیونکہ سیلاب بلا سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ فی الحال تو ان سے اپنا صوبہ نہیں سنبھالا جاتا وہاں امن و امان کی صورتحال نہایت ابتر ہے۔ وہ بھلا یہ بیٹھے بٹھائے نئی مصیبت کیوں اپنے گلے میں ڈالیں اس لئے اگلے ہی سانس میں کہہ دیا خیبر پی کے کیوں بھیجیں‘ انہیں رہا کر دیا جائے۔ جی یہ ہوئی نا بات‘ یہ مطالبہ تو تحریک انصاف کے کارکن اور محبین عرصہ سے کر رہے ہیں۔ مگر جانتے سب ہیں کہ یہ سب ممکن نہیں۔ اس وقت علی امین گنڈاپور ڈی چوک سے فرار‘ بشریٰ بی بی کو تنہاءاور کارکنوں کو لاوارث چھوڑنے والے سوالات سے پریشان ہیں۔ اب وہ ان سوالات سے اور دھڑے بندیوں کے سوال سے جان چھڑانے کیلئے ایسی باتیں کرتے ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ وہ کچھ دیر کے اصل موضوعات کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی سننے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ورنہ صوبے کی حکومت میں اتنی طاقت کہاں کہ وہ اس خواہش کو پورا کر سکے۔ اس شوق کو پالنے سے بہتر ہے وزیراعلیٰ اپنے صوبے میں لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر بنانے پر توجہ دیں‘ وہ زیادہ مناسب ہے۔
امریکہ میں سو سالہ شخص نے 102 سالہ خاتون کی محبت میں گرفتار ہو کرشادی کرلی۔
جی ہاں! یہ دونوں 9 سال اولڈ ہوم میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوئے۔ ورنہ اس عمر میں تو لوگ اگلے جہاں سدھارتے ہیں۔ سو سالہ لبرٹی لیٹمین اور 102 سالہ مارجوری فیزسن نے جو اپنے اپنے شریک حیات کے مرنے کے بعد بھی سوچا بھی نہیں تھا کہ آخری عمر کے آخری حصے میں جب وہ اولڈ ہوم میں زندگی کے باقی ایام بسر کر رہے ہونگے‘ ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اس عمر میں تو لوگ جوڑوں کے درد‘ کمر کے درد یا شوگر اور دل کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مگر یہ دونوں کیوپڈ کے تیر کا نشانہ بن گئے اور 9 سال ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت کی پینگیں بڑھانے کے بعد بالآخر انہوں نے رشتہ ازدواج میں بندھنے کا فیصلہ کیا۔ یوں انہوں نے ورلڈ بک آف گِنز ریکارڈ میں اپنا نام دنیا کے سب سے معمر جوڑے کے طور پر لکھوالیا۔ اب شاید ہی کوئی یہ ریکارڈ توڑ سکے۔ یہ بڑا واقعہ ہے۔ جس معاشرے میں جوان لوگ شادی کے بندھن میں بندھنے سے گھبراتے ہیں‘ کتراتے ہیں‘ اس معاشرے میں انہوں نے شادی کرکے اس ذمہ داری کے بوجھ کو خوشبو سے بھی ہلکا ثابت کردیا۔ یوں ایک نادر مثال قائم کی ہے۔ اس طرح شاید امریکہ میں شادیوں سے گریز کا رجحان کم ہو جائے اور لوگ اس مقدس بندھن کی اہمیت سمجھنے لگیں۔
ہسپتالوں سے طبی فضلہ چوری‘ سستے برتن اور کھلونے بنا رہے ہیں۔
زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس میں بحیثیت قوم ہم زوال پذیر نہیں ہیں۔ دینی یا دنیاوی‘ کاروباری اور سیاسی میدان میں بھی یہی زوال پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ دھوکہ اور بے ایمانی کو ہم نے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ پیسے کی ہم پوجا کرتے ہیں‘ مال کمانے کیلئے ہم نیک و بد کی تمیز اور تفریق تک بھلا دیتے ہیں۔ پوری قوم کے مستقبل کو تباہ کر دیا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل پروٹیکشن ایجنسی کی رپورٹ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تاہم مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں رہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ہسپتالوں کا فضلہ یعنی ضائع شدہ سامان کچرا وغیرہ جو مریضوں کے استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے‘ وہ انسانی صحت کیلئے مضر اور خطرناک ہوتا ہے۔ ظلم تو یہ بھی ہے کہ یہ فضلہ صحیح طریقے سے ضائع بھی نہیں کیا جاتا۔ جس کی وجہ سے یہ ہر طرح کی خطرناک بیماریوں سے آلودہ ہوتا ہے۔ پلاسٹک اور ربڑ کی بنی یہ چیزیں کوڑے دانوں میں پھینک دی جاتی ہیں‘ جہاں سے کچرا اٹھانے والے انہیں جمع کرکے کباڑ خانوں میں فروخت کرتے ہیں جو فیکٹری والوں کو بیچ دیتے ہیں۔ یہ ظالم انسانوں کے دشمن ہیں۔ حاجی اور نمازی بھی کہلاتے ہیں۔ اس خطرناک کچرے کو ری سائیکل کرکے ان سے سستے داموں برتن اور بچوں کے کھلونے بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ جو لوگ یہ زہریلے برتن اور کھلونے خریدتے ہیں ‘ وہ نہیں جانتے کہ انجانے میں وہ موت کا سامان خرید رہے ہیں۔ غریب لوگ یہ سستا سامان خریدتے ہیں۔ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ملک میں کسی بھی ہسپتال کے پاس اسکے ضائع ہونے والے مال اسباب کا ڈیٹا موجود نہیں۔ جو رکھنا ضروری ہے۔ طرح طرح کی بیماریاں جو پہلے شاذ و نادر ہی نظر آتی تھیں‘ اب اس کی وجہ سے ہر جگہ پھیلی نظر آرہی ہیں۔