سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل روکنے سے متعلق درخواست خارج کر دی اور درخواست گزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کر دیا۔ آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں کو کیسز کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا بھی مسترد کر دی۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل جبکہ سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ ہونے تک سماعت نہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔ عدالت نے جسٹس(ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ وہ آئینی بینچ کو تسلیم کرتے ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا میں آئینی بینچ کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل سے کہا پھر آپ کمرہ عدالت چھوڑ دیں، جس پر وکیل نے کہا موجودہ آئینی بینچ جوڈیشل کمشن نے نامزد کیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا 26 ویں آئینی ترمیم کالعدم ہو چکی ہے؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ کی طرف سے تاخیری حربے استعمال ہو رہے ہیں، ہر سماعت پر ایسی کوئی نہ کوئی درخواست آجاتی ہے، 26ویں آئینی ترمیم کالعدم ہو جائے تو عدالتی فیصلوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، جن لوگوں کے کیس ملٹری کورٹس میں زیر سماعت ہیں کیا وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔حکومت کی طرف سے فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں کو کیسز کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کا مطلب فوجی عدالتوں کا اختیار تسلیم کرنا ہو گا۔ آئینی بنچ نے حکومت کی فوجی عدالتوں کو کیسز کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی درخواست مسترد کر دی۔ بعد ازاں آئینی بینچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے فیصلے تک فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت مو¿خر کرنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق بل اگست 2023ءمیں منظور ہوا۔ ”آرمی ایکٹ“ اور ”آفیشل سیکرٹ ایکٹ“ میں ترامیم کے تحت سویلین افراد پر بھی فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی اجازت دی گئی۔ یہ ترامیم خاص طور پر 9 مئی 2023ءکے واقعات کے بعد زیر غور آئیں، جن میں حساس تنصیبات پر حملے ہوئے تھے۔یہ ترامیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں، یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ، سے منظوری کے بعد صدر کی توثیق کے ذریعے قانون کا حصہ بنیں۔اس قانون کے بعد کئی لوگوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو چکے ہیں جبکہ عدالتوں کو فیصلہ سنانے سے روکا گیا ہے۔
مذکورہ بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس پر پانچ رکنی بینچ بنایا گیا تھا۔جس نے اس کیس پر سماعت کی۔23 اکتوبر 2023ءکو سپریم کورٹ نے محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلیز کے ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا۔سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نے سماعت کی ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی ، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بنچ میں شامل تھے۔جسٹس اعجاز الحسن نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا، عدالت میں فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا گیا جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔فیصلے میں سکیشن 2 ڈی ون کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل نہیں کیا جاسکتا، 9مئی کے 103 ملزمان کا ٹرائل کریمنل کورٹ میں ہی چل سکتا ہے۔اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل کی گئی تو یہ فیصلہ معطل کر دیا گیا۔ 13 دسمبر 2023ءکوسپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کیا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے فیصلے پر انٹراکورٹ اپیل کی ابتدائی سماعت کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا۔
سپریم کورٹ نے عبوری اور مختصر فیصلے میں قرار دیا تھاکہ انٹراکورٹ اپیل کے فیصلے تک فوجی عدالتوں میں جاری ٹرائل میں کسی بھی عام شہری کو حتمی سزا نہیں سنائی جائے گی۔پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت اور وزارت دفاع نے اپیلیں دائر کر رکھی تھیں۔چھ رکنی عدالتی بینچ کے پانچ ججز نے اکثریت سے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ معطل کیا جس کے تحت فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔جسٹس مسرت ہلالی نے پانچ ججز سے اختلاف کیا۔
نو مئی میں ملوث 103 ملزمان پاک فوج کی کسٹڈی میں ہیں۔ بادی النظر میں ان کے ٹرائل مکمل ہو چکے ہیں۔یہ ضروری نہیں ہے کہ سارے کے سارے زیر حراست ملزم قصوروار ہوں۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ سب کا ایک جیسا قصور ہو۔قصورواروں کو مختلف نوعیت کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔کچھ ہو سکتا ہے دو چار ماہ کی سزا کے مستحق ہوں اور کئی بریت کے حقدار بھی ہوں گے۔سپریم کورٹ کی طرف سے فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ آئینی بینچ کی طرف سے کوئی بھی فیصلہ آ سکتا ہے۔ آئینی بینچ 2023ءکی قانون سازی کو کالعدم قرار دے سکتا ہے۔اس قانون کے اجرا کا حکم بھی صادر کر سکتا ہے۔فیصلہ جو بھی آنا ہے وہ جلد آ جائے تو بہتر ہے۔تاکہ ایسے لوگ جن پر جرم ثابت نہیں ہو سکا وہ باعزت بری ہو سکیں اور جن کو چند ماہ کی سزا ہوئی ہے وہ اب تک مکمل ہو چکی ہوگی۔ وہ بھی اپنے گھروں کو جا سکیں۔