قومی اسمبلی کے ایوان میں گزشتہ روز بہت ہی مدت کے بعد ایک ایسا دن تھا جب اپوزیشن لیڈر اور حکومت کی جانب سے اہم وزیر کی تقریر کو ایوان کے دونوں بنچز پر آرام سے سنا گیا، حکومت اور اپوزیشن کے ارکان نے چند لقمے دئیے جو یقینا مخالفانہ ہی تھے تاہم تقاریر میں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی اور نہ مقرر نے ان مخالفانہ اور چبھتے جملوں کا جواب دینے کی ضرورت محسوس کی، اجلاس میں ایجنڈے پر کوئی کاروائی نہ ہو سکی اور اجلاس کو ملتوی کرنا پڑ گیا اور اس کی بڑی وجہ خود پی ٹی آئی تھی جس کے ایک پرجوش رکن ہے صرف اس بات کا برا منا کر انہیں بات نہیں کرنے دی جا رہی ہے کورم کی نشاندہی کر کے اجلاس کو ملتوی بھی کروا دیا، جس کا نقصان خود ان کی اپنی ہی پارٹی کو ہوا کیونکہ پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر مختلف عام ایشوز پر اپنی پارٹی کا موقف بیان نہیں کر سکے، جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری نے بلوچستان اور کے پی کی صورتحال کو بہت نازک قرار دیا۔ ان کا موقف تھا کہ با اختیار مذاکرات کی ضرورت ہے ایسی ٹیم بنائی جائے جس کے پاس تمام اختیارات ہوں اور وہ تمام سٹیک ہولڈر سے بات کرے،کورم کی نشان دہی ہونے کی وجہ سے متعدد دوسرے ارکان بھی اظہار خیال نہیں کر سکے۔