"حکمرانی کے راز"

عددی اعتبار سے بات کریں تو مولانا فضل الرحمن کی پارلیمانی قوت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کی اپنی ذات بھی اس تناظر میں فروری 2024ء میں ہوئے انتخاب کی بدولت کمزور دکھائی دی۔ ڈیرہ اسماعیل خان ان کا آبائی حلقہ ہے۔ 1970ء کے تاریخی انتخابات کے دوران یہ واحد شہر تھا جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو ان کے مرحوم والد مولانا مفتی محمود کے ہاتھوں شکست کھاگئے تھے۔ جنرل ضیاء کے فضائی حادثے میں انتقال کے بعد 1988ء میں جو عام انتخابات ہوئے ان کے دوران بھی یہ حلقہ مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ قومی اسمبلی میں اپنی موجودگی یقینی بنانے کے لئے مولانا ڈیرہ اسماعیل خان کے علاوہ بنوں اور لکی مروت سے بھی انتخاب لڑتے رہے۔ 2024ء میں لیکن انہیں اپنے صوبے کے علاوہ بلوچستان کے ایک حلقے سے بھی قومی اسمبلی تک پہنچنے کی کوشش کرنا پڑی اور تکنیکی اعتبار سے اب وہ پارلیمان میں خیبرپختونخواہ کے بجائے بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
انتخابی سیاست سے قطع نظر حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ مولانا کی جمعیت العلمائے اسلام ایک منظم تنظیم ہے۔ جب چاہے ہزاروں افراد کے ہمراہ کئی دنوں کا سفر کرتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد میں داخل ہوسکتی ہے۔ دینی بنیادوں پر منظم ہوئی یہ جماعت مگر ’’آئینی سیاست‘‘ میں حصہ لینے کو بضد ہے۔ اسلام کے نام پر ابھرے انتہا پسندگروہوں کی طرح بندوق کے زور سے اپنی سوچ معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ مولانا کی ’’آئین دوستی‘‘ اگرچہ انتہا پسندوں کو ان کے خلاف مشتعل بنادیتی ہے۔ اسی باعث ان کی جان لینے کے لئے مولانا پر بارہا خودکش حملے ہوئے۔ ربّ کا صد شکر کہ وہ ان سے محفوظ رہے۔
مولانا کی ’’آئین پسندی‘‘ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ انہیں اپنے ساتھ ملائے رکھیں۔ اسی باعث جب آئین میں 26ویں ترمیم متعارف کروانے کی کوشش کا آغاز ہوا تو دونوں جماعتوں کے سرکردہ رہ نمائوں نے ان کی اسلام آباد والی اقامت گاہ کے پھیرے لگانا شروع کردئے۔ آصف زرداری بطور صدرِ پاکستان پروٹوکول کے تمام تقاضے نظرانداز کرتے ہوئے ان کے ہاں تشریف لائے اور ’’آئین دوست‘‘ مولانا کو بندوق کا تحفہ دے کر مجھے حیران کردیا۔ آصف صاحب کے بعد ان کے فرزند مستقل مولانا کا تعاقب کرتے رہے۔ اپنے دیرینہ دوستوں کے اصرار پر مولانا 26ویں ترمیم کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو آمادہ ہوگئے۔ اپنی حمایت کے عوض مولانا نے مگر حکومت کو مجبور کیا کہ وہ 2028ء تک پاکستانی معیشت کو سود سے پاک کرنے کا وعدہ کرے۔ اس کے علاوہ ایک قانون بھی دونوں ایوانوں سے 26ویں ترمیم پاس ہونے کے فوری بعد منظور کروایا گیا۔ وہ قانون مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق تھا۔
مذکورہ قانون منظور ہوا تو میں نے اس کا مسودہ کئی بار غور سے پڑھا۔ صحافی کی نگاہ اس میں کوئی ’’جھول‘‘ ڈھونڈنے میں ناکام رہی۔ صدرِ پاکستان نے مگر اس پر دستخط سے انکار کردیا۔ صدرِ پاکستان کی جانب سے مذکورہ قانون کے اطلاق میں دکھائی مزاحمت نے مولانا کو حیران کردیا۔ ٹیلی فون پر ہوئے روابط کے نتیجے میں بالآخر بلاول بھٹو زرداری مولانا کے گھر تشریف لائے اور انہیں حمایت کا یقین دلادیا۔ بلاول بھٹو کی مولانا سے ملاقات کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا۔ مجھ سادہ لوح نے یہ فرض کرلیا کہ حکومت مولانا کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بھی طلب کرلے گی۔ امکانی اجلاس میں صدر کی جانب سے پارلیمان کو ازسرنو غور کے لئے بھجوائے دینی مدارس سے متعلق بل کو منظور کرلیا جائے گا۔
پیر کی صبح یہ کالم لکھ کر دفتر بھجوادینے کے بعد مگر میں نے ریموٹ کا بٹن دباکر ٹی وی آن کیا تو علماء کا ایک اجلاس ہر چینل پر براہ راست دکھایا جارہا تھا۔ مذکورہ اجلاس میں صرف دیوبندی مسلک ہی نہیں بلکہ دیگر تمام مسالک کے نمایاں رہ نما بھی شریک ہوئے۔ وہ سب مصر رہے کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن کیلئے اگست 2019ء میں عمران حکومت کے دوران ایک قانون پاس ہوچکا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے مولانا کے اصرار پر تیار ہوئے ’’نئے قانون‘‘ کواطلاق کی ضرورت نہیں ہے۔ بات اگر پرانے اور نئے قانون تک محدود رہتی تو میں ہرگز حیران نہ ہوتا۔ جس اجلاس کو تقریباََ دو گھنٹے تک براہ راست دکھایا گیا اس سے خطاب کرتے ہوئے چند افراد نے مولانا فضل الرحمن پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ تمام مسالک کے مدارس کے ’’یک وتنہا ٹھیکے دار‘‘بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہیں بنیادی طورپر ’’محض سیاست دان‘‘ ہونے کے طعنے بھی دئے گئے۔ جس اجلاس کا میں ذکر کررہا ہوں اس کی براہ راست کارروائی دیکھتے ہوئے میرا وسوسوں بھرا دل پریشان ہوگیا۔ مجھے شبہ ہوا کہ سیاستدانوں سے ماورا ریاست کی دائمی قوتیں مولانا فضل الرحمن کو ان کی ’’محدودات‘‘ یاد دلانا چاہ رہی ہیں۔ مذکورہ اجلاس کے خاتمے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے جس تلخ زبان میں اپنا دفاع کیا اس نے میرے دل میں جمع ہوئے شکوک کو تقویت پہنچائی۔
ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں ہرگز سمجھ نہیں پارہا کہ مولانا کو مشتعل کرتے ہوئے دیوار سے لگانے کی کوشش کیوں ہورہی ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد ایک سنگین بحران کی زد میں آیا تھا۔ 24فروری کے دن عمران خان کی ’’فائنل کال‘‘ پر لبیک کہتے ہوئے تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن محترمہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور کی قیادت میں اسلام آباد داخل ہوگئے تھے۔ 26نومبر کو سورج ڈھلنے کے بعد اسلام آباد آئے ہجوم کو پسپا ہونے کو مجبور کردیا گیا۔ اسلام آباد ہجوم کی پسپائی کی بدولت ’’سینکڑوں ہلاکتوں‘‘ کا دعویٰ ہورہا ہے۔ جو صحافی ان کی تصدیق نہ کرے اسے موجودہ حکومت کا ‘‘ٹا?ٹ‘‘ ٹھہرادیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں مولانا فضل الرحمن کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنا میری دانست میں خواہ مخواہ کا پنگا ہے۔ حکومت مگر حکومت ہوتی ہے اور فارسی کا ایک محاورہ متنبہ کرتا ہے کہ حکمرانی کے راز سلطان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ’’حکمرانی کے راز‘‘ مگر حافظ الاسد کوبھی ’’منہ زبانی‘‘ یاد تھے۔ 1970ء کے برس سے وہ اور اس کی موت کے بعد بشارالاسد برسراقتدار رہا۔ چند ہی روز قبل ’’اسدراج‘‘ کا تاہم حیرت انگیز برق رفتاری کے ساتھ خاتمہ ہوگیا ہے۔ تاریخ کا مگر ابدی المیہ یہ ہے کہ اس سے کوئی حکمران سبق سیکھنے کو آمادہ ہی نہیں ہوتا۔

ای پیپر دی نیشن