محکمہ ریلوے دو ہزار چوبیس میں بھی کرایوں میں ریکارڈ اضافے کے بعد بھی سفری سہولیات فراہم کرنے میں نا کام رہا۔ ٹرینوں میں کھڑکی توڑ رش کے باوجود ایک کھرب آمدنی کا ہدف ایک خواب بن گیا ہے۔
ایک زمانے میں ریلوے ٹریک ترقی کی علامت اور ٹرین کا سفر سستا ذریعہ سمجھا جاتا تھا. لیکن سالوں سے پاک ریل تنزلی کے سفر کی جانب گامزن ہے۔ 160 سال پرانے ٹریک پر حادثات آئے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ پاکستان ریلوے کی 98 مسافر ٹرینوں میں سالانہ ساڑھے چار کروڑ مسافر سفر کرتے ہیں۔وفاقی حکومت نے آمدن بڑھانے کیلئے 12 منافع بخش روٹس کو پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا اور سال 2024 کیلئے ریونیو کا ہدف ایک کھرب مقرر کیا، جو تاحال 70 فیصد ہی حاصل ہو سکا ہے۔ انتظامیہ کیمطابق ایک لاکھ 13 ہزار سے زائد پینشنرز اور 63 ہزار ملازمین کی تنخواہوں کے علاوہ بجٹ خسارہ بھی ہمیں اپنے وسائل سے پورا کرنا ہے۔
دوسری جانب کرائیوں میں اضافے کے باعث اب اکانومی کلاس کا ٹکٹ بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔ پلیٹ فارمزز کی ناگفتہ بہ حالت، خستہ حال بوگیوں اور پینے کا پانی تک دستیاب نہ ہونے پر مسافر بھی ریلوے انتظامیہ پر پھٹ پڑے۔ریلوے کی حالت زار بہتر نہ ہونےاورفریٹ ٹرینوں سے آمدن کم ہوںےسےبھی محکمہ کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔