حکمران امریکی اور نیٹوافواج کو افغانستان میں تحفظ فراہم کرنے کے لئے پورے قبائلی علاقے میں آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں : قبائلی عمائدین

لاہور (رپورٹ: معین اظہر) ہمارے حکمران امریکی اور نیٹوافواج کو افغانستان میں تحفظ فراہم کرنے کے لئے پورے قبائلی علاقے میں آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ حکمرانوں اور فورسز کے ظلم کی وجہ سے پولیش انجینر جیسے واقعات ہورہے ہیںاور جن کے بچے ، عورتیں ، اور بزرگ بمباری سے ہلاک ہونگے تو وہ کس سے انتقام لیں گے ۔ اس وقت لاکھوں قبائلی مہاجر بنے ہوئے ہیں انتہائی بری حالت میں زندگی گزار رہے ہیں تب بھی وہ پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کر رہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ محب وطن ہیں یہ باتیں مختلف قبائلی عمائدین نے حمید نظامی ہال میں قبائلی علاقوں کی صورتحال اور اس کا حل کے موضوع پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہیں۔ ان میں صاحبزادہ ہارون رشید امیر جماعت اسلامی فاٹا وسابق ایم این اے ، میاں خاں بادشاہ باجوڑ ایجنسی ، زرنور آفریدی خیبر ایجنسی ، اور حاجی منصف خان محمد ایجنسی شامل۔ منتظم کے فرائض طارق اسماعیل ساگر نے ادا کئے۔ ہارون رشید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قائداعظم نے قبائلی علاقوں کو پاکستان کی شمشیر قرار دیا تھا اور فوج کو وہاں سے واپسی کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے متعلق کہا گیا اور ہزاروں لوگوں کی ہلاکت کے بعد پتہ چلا کہ وہاں کوئی کیمیائی ہتھیار نہیں ہیں اسی طرح ہمارے حکمرانوں جرنیلوں نے قبائلی علاقوں میں فوج کشی کرتے وقت غیر ملکیوں کے ہونے کا دعویٰ کیا اب بتایا جائے کہ ان علاقوںمیں کون سے غیر ملکی مارے جارہے ہیں تمام لوکل افراد مارے جارہے ہیں جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے شامل ہیں انہوں نے کہا کہ یہ افغان قوم کی عادت ہے کہ وہ غیر ملکی تسلط کو قبول نہیں کرتے اور اب انہوں نے امریکی اور نیٹو افواج کے غیر ملکی تسلط کے خلاف قدم اٹھایا ہے اور افغانی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے امریکی اور نیٹو افواج کو محدود کر دیا ہے جس پر امریکہ نے پاکستان کے قبائلی علاقے پر الزام لگا دیااور اب آگ پوری قبائلی پٹی پر لگ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 3 ہزار معصوم شہری شہید ہوئے ہیں 6 ہزار زخمی ، اور 10 ہزار گھر مسمار ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کہا گیا تھا کہ غیر ملکیوں کے خلاف اپریشن کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ان قبائلی علاقوں میں ایک غیر ملکی نہیں مرا۔ انہوں نے کہا کہ تمام واقعات کو ایک ہی رخ میں بیان کیا جارہا ہے۔ ہم سوات میں لڑکیوں کے سکولوں کو جلانا پسند نہیں کرتے لیکن خود بمباری سے جو سکول بند کئے گئے ہیں ان کے بارے کوئی کیوں نہیں بولتا کیونکہ باجوڑ میں کوئی گاوں ایسا نہیں ہے جہاں بمباری نہ ہوئی ہو بچے اور خواتین نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام واقعات کا ایک ہی حل ہے کہ پارلیمنٹ نے جو قرارداد منظور کی تھی اس کے مطابق قبائلی علاقے میں اپریشن فوری طور پر بند کر دیا جائے، مالی نقصانات کی تلافی کی جائے، فوج کو واپس بلایا جائے ، حکومت پاکستان کی امریکی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ قاضی حسین احمد کے ذریعے حکومت کو تجویز دی تھی کے باجوڑ میں امن معاہدہ کیلئے تیار ہیں چھ ماہ سے حکومت نے کوئی بھی جواب نہیں دیا۔ زر نور آفریدی جن کا تعلق خیبر ایجنسی سے ہے نے کہا کہ ہر قبائلی علاقے اپنے اپنے طریقے سے جنگ ہورہی ہے۔ خیبر ایجنسی کی تنظیموں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے۔ حاجی منصف خان نے کہا کہ طالبان کا تو کوئی نقصان قبائلی علاقے میں نظر نہیں آرہا لیکن عام لوگ شہید کئے جارہے ہیں۔ میاں خان بادشاہ نے کہا کہ گاوں کے گاوں بلڈوز کئے جارہے ہیں۔ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ لوگ واپس آجائیں دوسری طرف مکان بلڈوز کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باجوڑ میں چار روز سے پھر اپریشن شروع کر دیا گیا ہے اور لوگوں کو مارنے کے لئے واپس بلارہے ہیں۔ اسلئے ہمارا کوئی مطالبہ نہیں ہے صرف یہ کہ امریکہ نواز پالیسی تبدیل کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے طالبان پاکستان کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے اندازے کے مطابق جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان میں 10 ہزار افراد شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتنی قربانیاں دینے کے باوجود قبائلی علاقے میں کوئی علیحدگی پسند تحریک نہیں ہے یہ ہمارے محب وطن ہونے کا ثبوت ہے۔ اور ہم آج بھی اس ملک میں امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اگر یہ جنگ جاری رہی تو ملک تباہ برباد ہوجائے گا۔

ای پیپر دی نیشن