’’فارگیٹ اِٹ!‘‘

ہر روز وقت پر دفتر پہنچنا اور حاضری وغیرہ لگوانا چونکہ ہمارا مسئلہ کبھی نہیں رہا کہ مرضی سے سونے اور انتہائی مرضی سے اٹھنے کی عیاشی کا ارتکاب ہم برسوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس لئے چھٹی کا دن ہمارے لئے کسی خصوصی اہمیت کا حامل نہیں ہوا کرتا تھا۔ چھٹی کے تصور سے ہی دماغ میں ’’دوپہر خیزی‘‘، ہڈ حرامی اور مردم بیزاری جیسے خوشگوار خیالات آنے لگتے ہیں اور سچ پوچھیں تو ہمارا یہ روز کا ہی کام ہے۔ چنانچہ چھٹی ہو یا نہ ہو‘ ہمارے لئے ہفتے کے تمام دن تقریباً ایک ہی جیسے ہوا کرتے تھے مگر پچھلے دو ایک ہفتوں سے یہ سلسلہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ اگر آپ چھٹی کے دن باہر سڑک پر جانکلیں تو آپ کو بڑی شدت سے یہ احساس ہوگا کہ لاہور آج بھی کبھی کبھار ٹریفک اور شور شرابے کی ذلتوں سے پاک نظر آتا ہے۔ پچھلی دو عدد چھٹیاں ہم نے وہ کام اس قدر رغبت کے ساتھ کیا ہے کہ جسے کرگزرنا عام حالات میں ہمارے لئے دنیا کے ذلیل ترین کاموں میں سے ایک ہے اور وہ کام ہے لاہور کی سڑکوں پر ڈرائیونگ۔ جی ہاں! اب لاہور کی سڑکوں پر ڈرائیونگ کرنا واقعی جوئے شیر لانے کے ہی مترادف ہے اور یہ جوئے شیر بھی وہی پروفیسر قیوم نظر مرحوم و مغفور والی ہے! تاہم چھٹی کے روز لاہور کا ٹریفک و دیگر آلائشیں تقریباً 80 فیصد گھٹ کر بیس برس پرانے لاہور کا عمومی منظر پیش کرتی ہیں۔ یہ احساس بھی آپ کو چھٹی کے دن ہی ہوسکتا ہے کہ آپ آج بھی لاہور کی سڑکوں پر ستر‘ اسی کی رفتار سے گاڑی بھگا سکتے ہیں۔ ورنہ عام طور پر تو یہاں پچیس 30 کلومیٹر کی رفتار انتہائی خطرناک ڈرائیونگ کے زمرے میں آتی ہے جس سے ’’لطف اندوز‘‘ صرف ویگن ڈرائیور ہی ہوا کرتے ہیں۔ بہرحال پچھلی دو چھٹیاں ہم نے نہ صرف گاڑی خوب دوڑانے کا شوق پورا کیا بلکہ لاہور کے ان کونے کھدروں کا طواف بھی خوب کیا کہ جدھر گئے ہمیں برس ہا برس ہوچکے ہیں۔ مثلاً گورنمنٹ کالج جو ہمارے بچپن کی محبت ہے اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ اب ہمارے لئے تقریباً اجنبی ہو چکا ہے۔ بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی‘ ہوش ربا تجاوزات اور احمقانہ طرز کی تعمیرات نے لاہور کے بیشمار علاقوں کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے۔
گورنمنٹ کالج کے اس پار دریائے راوی پر نظر پڑی تو دل لہو سے بھر گیا۔ وہ خوبصورت اور دلفریب دریا جس کا نام یونانیوں نے بصد عزت و احترام‘ ’’ہائیڈروٹس‘‘ (Hidrotes) رکھا تھا‘ آج ایک بدبو دار جوہڑ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ آج سے تقریباً 7 سال ادھر ناظم لاہور نے ایک تقریب میں ہمارے سامنے مستقبل کے لاہور کا ایک دلکش نقشہ کھینچا۔ لاہور کو خوبصورت بنانے سے متعلق اس دیومالائی سی گفتگو میں دریائے راوی کا ذکر بھی چل نکلا۔ ناظم نے بتایا کہ راوی سائفین سے لے کر سگیاں پل تک 17 کلومیٹر طویل صاف پانی کی ایک دلربا جھیل بنانے کا ماسٹر پلان تیار ہو چکا ہے جس کے دونوں کناروں پر برج دبئی کی طرز پر جدید اور بلند و بالا عمارات تعمیر کی جائیں گی اور اس علاقے کو لاہور کا بزنس ڈسٹرکٹ قرار دے کر شہر کے ٹریفک میں خاطر خواہ کمی کی جائے گی۔ اس بات میں اس قدر سحر تھا کہ قبلہ مجیب الرحمن شامی پورا ہفتہ‘ عطاء الحق قاسمی پورا مہینہ اور ہم پورا سال اس میں مبتلا رہے۔ انہی دنوں روئیداد خان کی مختصر مگر انتہائی شاندار کتاب ’’اے ڈریم گان ساور‘‘ (A Dream Gone Sour) پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ خانؔ صاحب نے بھٹوؔ کے ذوق و شوق کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب میں چیف سیکرٹری صوبہ سندھ تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو ہر ملاقات پر مجھ سے فرمائش کرتے کہ حیدر آباد والی جھیل میں وہ فوارہ نصب کروائو جو جنیوا کی جھیل میں نصب ہے اور جس کی پھوار سوئٹزرلینڈ کی پہچان بن چکی ہے۔ روئیداد خان کہتے ہیں کہ لمبی چوڑی بھاگ دوڑ کے بعد بھی فوارے والا تجربہ کامیاب نہ ہوسکا اور ایک دن بھٹو صاحب نے دلبرداشتہ ہو کر فائل پر یہ لکھ کر کیس کلوز کر دیا‘ ’’فارگیٹ اِٹ‘‘۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگر بھٹو صاحب یہی بات زبانی کلامی کرتے تو کہتے ’’لعنت بھیجو فوارے پر‘‘۔ لاہور کی راوی جھیل کا انجام بھی اس فوارے والا ہی ہوا۔ چنانچہ نہ تو راوی جھیل کا خواب پورا ہوا۔ نہ ’’ماس ٹرانزٹ‘‘ کا منصوبہ سر اٹھا سکا‘ نہ ہی کاہنہ کے قریب ایک نیا قبرستان بن سکا چنانچہ میانی صاحب کے مردوں کو مزید مایوس کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بیچارے ناظمین تو اب ویسے بھی قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔ موجودہ حکومت نے ان کے تابوت میں آخری کیل کمشنروں والی ٹھونک دی ہے۔ اس لئے یہ مسکین اب ان خوابوں کا ذکر بھی نہیں کرتے جو مشرف کی بدنیتی اور ان کی سست روی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
آج لاہور کے ایک انتہائی ہونہار ڈیزائنر اور ماہر تعمیرات خالد عبدالرحمن کی باتیں سن کر ایک بار پھر ناظم لاہور کی 7 سال پرانی تقریر یاد آنے لگی۔ خالد صاحب جو پچھلے دنوں دبئی میں ’’واٹر فرنٹ سٹی‘‘ یعنی ’’لب دریا شہر‘‘ کے زیر عنوان ایک بین الاقوامی ورکشاپ سے پورے یورپ اور امریکہ کا فیض سمیٹ لائے ہیں‘ راوی جھیل کے منصوبے پر ازسرنو غور شروع کر چکے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ لاہور کی ٹریفک اور ٹور ازم سے متعلق چند انقلاب آفرین پلان بھی موصوف نے دن رات عرق ریزی کرکے تیار کیا۔ ہم نے یہ خوشگوار خیالات سنے تو دل خوش ہوا کہ شاید لاہور کو سچ مچ بچا ہی لیا جائے۔ اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کی باری آئی تو دھیان فوراً وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرف گیا۔ ہمارے چہرے پر اطمینان کی لہر نمایاں ہوئی کہ شہباز شریف کو بھی لاہور کی فکر اکثر ستاتی رہتی ہے۔ مگر پھر فوراً ہی نااہلی کی لٹکتی تلوار یاد آئی۔ اس مرتبہ ہمارے چہرے پر مایوسی اور غم و غصے کی لہر نمایاں ہوئی۔
ہمیں یقین ہے کہ 7 سال پہلے ہی راوی جھیل والے پراجیکٹ پر کام شروع ہوجاتا تو اب تک یہ مکمل ہو کر لاہور کی خوبصورتی میں اضافہ کر چکا ہوتا۔ مگر اس وقت کی صوبائی حکومت نے ہر معاملے میں اپنا لُچ تلتے ہوئے اس پراجیکٹ کو داخل دفتر کردیا۔ بالکل اس طرح جس طرح موجودہ صوبائی حکومت نے بیچارے ناظمین کو ہی اٹھا کر داخل دفتر کر ڈالا ہے۔ اب اگر بعض پراسرار قوتوں نے شہباز شریف کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا اور ان کی حکومت قائم رہی تو انشاء اللہ یہ جھیل ضرور بنے گی اور اس میں جنیوا جھیل والا فوارہ بھی ضرور نصب ہوگا۔ لیکن اگر شہباز شریف حکومت کو بھی چلتا کیا گیا تو پھر جھیل والا خواب ہمیشہ خواب ہی رہے گا اور شاید اس فائل پر بھی یہی لکھنا پڑے، ’’فارگیٹ اِٹ!‘‘

ای پیپر دی نیشن