گورنمنٹ کالج کے اس پار دریائے راوی پر نظر پڑی تو دل لہو سے بھر گیا۔ وہ خوبصورت اور دلفریب دریا جس کا نام یونانیوں نے بصد عزت و احترام‘ ’’ہائیڈروٹس‘‘ (Hidrotes) رکھا تھا‘ آج ایک بدبو دار جوہڑ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ آج سے تقریباً 7 سال ادھر ناظم لاہور نے ایک تقریب میں ہمارے سامنے مستقبل کے لاہور کا ایک دلکش نقشہ کھینچا۔ لاہور کو خوبصورت بنانے سے متعلق اس دیومالائی سی گفتگو میں دریائے راوی کا ذکر بھی چل نکلا۔ ناظم نے بتایا کہ راوی سائفین سے لے کر سگیاں پل تک 17 کلومیٹر طویل صاف پانی کی ایک دلربا جھیل بنانے کا ماسٹر پلان تیار ہو چکا ہے جس کے دونوں کناروں پر برج دبئی کی طرز پر جدید اور بلند و بالا عمارات تعمیر کی جائیں گی اور اس علاقے کو لاہور کا بزنس ڈسٹرکٹ قرار دے کر شہر کے ٹریفک میں خاطر خواہ کمی کی جائے گی۔ اس بات میں اس قدر سحر تھا کہ قبلہ مجیب الرحمن شامی پورا ہفتہ‘ عطاء الحق قاسمی پورا مہینہ اور ہم پورا سال اس میں مبتلا رہے۔ انہی دنوں روئیداد خان کی مختصر مگر انتہائی شاندار کتاب ’’اے ڈریم گان ساور‘‘ (A Dream Gone Sour) پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ خانؔ صاحب نے بھٹوؔ کے ذوق و شوق کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب میں چیف سیکرٹری صوبہ سندھ تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو ہر ملاقات پر مجھ سے فرمائش کرتے کہ حیدر آباد والی جھیل میں وہ فوارہ نصب کروائو جو جنیوا کی جھیل میں نصب ہے اور جس کی پھوار سوئٹزرلینڈ کی پہچان بن چکی ہے۔ روئیداد خان کہتے ہیں کہ لمبی چوڑی بھاگ دوڑ کے بعد بھی فوارے والا تجربہ کامیاب نہ ہوسکا اور ایک دن بھٹو صاحب نے دلبرداشتہ ہو کر فائل پر یہ لکھ کر کیس کلوز کر دیا‘ ’’فارگیٹ اِٹ‘‘۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اگر بھٹو صاحب یہی بات زبانی کلامی کرتے تو کہتے ’’لعنت بھیجو فوارے پر‘‘۔ لاہور کی راوی جھیل کا انجام بھی اس فوارے والا ہی ہوا۔ چنانچہ نہ تو راوی جھیل کا خواب پورا ہوا۔ نہ ’’ماس ٹرانزٹ‘‘ کا منصوبہ سر اٹھا سکا‘ نہ ہی کاہنہ کے قریب ایک نیا قبرستان بن سکا چنانچہ میانی صاحب کے مردوں کو مزید مایوس کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بیچارے ناظمین تو اب ویسے بھی قصہ پارینہ ہو چکے ہیں۔ موجودہ حکومت نے ان کے تابوت میں آخری کیل کمشنروں والی ٹھونک دی ہے۔ اس لئے یہ مسکین اب ان خوابوں کا ذکر بھی نہیں کرتے جو مشرف کی بدنیتی اور ان کی سست روی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
آج لاہور کے ایک انتہائی ہونہار ڈیزائنر اور ماہر تعمیرات خالد عبدالرحمن کی باتیں سن کر ایک بار پھر ناظم لاہور کی 7 سال پرانی تقریر یاد آنے لگی۔ خالد صاحب جو پچھلے دنوں دبئی میں ’’واٹر فرنٹ سٹی‘‘ یعنی ’’لب دریا شہر‘‘ کے زیر عنوان ایک بین الاقوامی ورکشاپ سے پورے یورپ اور امریکہ کا فیض سمیٹ لائے ہیں‘ راوی جھیل کے منصوبے پر ازسرنو غور شروع کر چکے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ لاہور کی ٹریفک اور ٹور ازم سے متعلق چند انقلاب آفرین پلان بھی موصوف نے دن رات عرق ریزی کرکے تیار کیا۔ ہم نے یہ خوشگوار خیالات سنے تو دل خوش ہوا کہ شاید لاہور کو سچ مچ بچا ہی لیا جائے۔ اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کی باری آئی تو دھیان فوراً وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرف گیا۔ ہمارے چہرے پر اطمینان کی لہر نمایاں ہوئی کہ شہباز شریف کو بھی لاہور کی فکر اکثر ستاتی رہتی ہے۔ مگر پھر فوراً ہی نااہلی کی لٹکتی تلوار یاد آئی۔ اس مرتبہ ہمارے چہرے پر مایوسی اور غم و غصے کی لہر نمایاں ہوئی۔
ہمیں یقین ہے کہ 7 سال پہلے ہی راوی جھیل والے پراجیکٹ پر کام شروع ہوجاتا تو اب تک یہ مکمل ہو کر لاہور کی خوبصورتی میں اضافہ کر چکا ہوتا۔ مگر اس وقت کی صوبائی حکومت نے ہر معاملے میں اپنا لُچ تلتے ہوئے اس پراجیکٹ کو داخل دفتر کردیا۔ بالکل اس طرح جس طرح موجودہ صوبائی حکومت نے بیچارے ناظمین کو ہی اٹھا کر داخل دفتر کر ڈالا ہے۔ اب اگر بعض پراسرار قوتوں نے شہباز شریف کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا اور ان کی حکومت قائم رہی تو انشاء اللہ یہ جھیل ضرور بنے گی اور اس میں جنیوا جھیل والا فوارہ بھی ضرور نصب ہوگا۔ لیکن اگر شہباز شریف حکومت کو بھی چلتا کیا گیا تو پھر جھیل والا خواب ہمیشہ خواب ہی رہے گا اور شاید اس فائل پر بھی یہی لکھنا پڑے، ’’فارگیٹ اِٹ!‘‘