ملت شریف پاکستان‘ اسلام علیکم!
خداوند قادر متعال کا شکر گزار ہوں کہ انقلاب اسلامی ایران کی اکتیسویں سالگرہ کے موقع پر ایک بار پھر پاکستان کے عزیز عوام سے گفتگو کا فخر حاصل ہو رہا ہے۔ ایرانیوں کیلئے پاکستان دوسرے گھر کی مانند ہے۔ پاکستان کی ترقی‘ سلامتی اور استحکام ایرانی حکومت اور عوام کی دلی خواہش ہے۔ آج کی نشیب و فراز سے بھرپور تاریخ گواہ ہے کہ ایران اور پاکستان کے دل اور مقاصد ایک ہیں۔ دونوں اقوام کے مشترکہ ثقافتی‘ مذہبی‘ تہذیبی اقدار اور خواہشات لازوال ہیں اور دونوں ممالک کے گہرے تعلقات پر مہر ثبت ہے۔
محترم بہنو اور بھائیو!
میں چاہتا ہوں اشارہ کرتا چلوں‘ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی قدیم سرزمین کی کئی ہزار سالہ تاریخ کے نشیب و فراز سے بھرپور تین دھائیاں گزار چکی ہے جن کا حاصل عوام کے حوصلے ایثار اور تھکاوٹ سے پاک جدوجہد کے نتیجے میں داخلی سیاسی نظام کے استحکام اور علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی جمہوریہ ایران کے وقار میں بلندی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔
ایران مشرق وسطی کے قلب میں ایک وسیع خطہ اراضی جو دریائے خزر او خلیج فارس کے گرم پانیوں کے درمیان ایک پل کی صورت میں واقع ہے۔ اس ممتاز جغرافیائی محل وقوع کے ساتھ ساتھ آب و ہوا کی تنوع نے ایشیاء اور دنیا کے قدیم دور میں انسانی تہذیبوں میں سے ایک تہذیب کو اس خطہ میں جنم دیا اور قبل مسیح کے دوسرے ہزارہ میں یہاں سکونت کا آغاز ہوا سال 230 قبل مسیح میں اپنے دور کا سب سے عظیم سیاسی نظام تشکیل پایا۔ ایرانیوں نے اپنے اوپر مختلف اقوام کی حکومت کے باوجود‘ امن پسندی دوسری اقوام کیساتھ دوستی‘ خدا خواہی‘ علم دوستی اور ظلم کیخلاف آواز بلند کرنے جیسی ذاتی خصوصیات کوبرقرار رکھا اور انکی بدولت کئی سالہ اسلامی جدوجہد کے نتیجے میں 11 فروری 1979ء کو ہمہ گیر قیام سے ظالمانہ شاہی نظام کو سرنگون کیا اور عوام کے استصواب اور محکموم ارادے سے اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد رکھی…؎
مٹایا قیصر و کسری کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زور حیدرؑ‘ فقر بوذرؓ‘ صدق سلمانیؓ
مسلسل اسلامی جدوجہد اور نئی ذمہ داریوں کی جستجو ایرانی معاشرے کی ٹھوس حقیقت ہے۔ حریت پسندی‘ آزادی و استقلال خواہی اور سامراجیت کیخلاف جدوجہد اسلامی جمہوریہ ایران کے قومی وفاق کے وجود کے تین بنیادی ستون ہیں…؎
نقش توحید کا ہر دل یہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
ایرانی معاشرے میں قانونیت کے وسعت و گہرائی‘ مثبت آزادیوں‘ مکالمہ‘ تکثر گرائی‘ انصاف پسندی‘ رواداری‘ فعال اشتراک عمل اور سول معاشرتی اداروں کی توسیع جیسی حکمت عملی ایک زندہ و پائندہ عمل ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا سیاسی نظام عوام کی خواہش ‘ محکم ارادے اور بھرپور اشتراک عمل اور عوامی ریفرنڈم اور 30 سے زیادہ انتخابات جس کے ذریعہ لوکل باڈیز‘ قومی اسمبلی‘ رہبر کے انتخاب کیلئے ماہرین کی مجلس اور صدارتی انتخابات جو ولایت فقیہ کی اعلیٰ نظارت کے نتیجے میں تشکیل پایا ہے۔ ولایت فقیہ کے نظرئیے پر مشتمل اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے ترقی پسند اصول‘ سیاسی نظام کے دوام و بقا اور ریاست کو اسلام‘ آئین اور مسلمان عوام کی آزادیوں کے حقوق کی پاسداری کے آداب کیمطابق چلانے کا ضامن ہے۔
ایران میں گذشتہ چند سالوں میں سیاسی و معاشرتی تبدیلیاں‘ عظیم سائنسی و فنی ثمرات اور پیشرفتوں کے ساتھ ساتھ‘ کشیدگی کے خاتمہ‘ اعتماد سازی‘ مکالمہ اور تعاون جیسے تصورات کی صورت میں ریاست کی خارجہ پالیسی میں قابل محسوس طور پر جلوہ گر ہوئے ہیں اور یوں خارجہ تعلقات میں نئے ابواب کو رقم کیا ہے۔ ایران کی 20 سالہ ترقیاتی جھلک میں جو کہ چار پانچ سالہ ترقیاتی پروگراموں پر مشتمل ہے۔ پیش بینی کی گئی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران 2025 کی علاقائی سطح پر اقتصادی‘ سائنسی اور فنی اعتبار سے نہایت اہم مقام پر فائز ہو چکا ہو گا…؎
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
اسلامی جمہوریہ ایران نے خارجہ پالیسی میں ہمسایہ اور دوسرے ممالک کے ساتھ اچھی ہمسائیگی‘ دوطرفہ‘ علاقائی اور بین الاقوامی تعلقات میں اضافے کے اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھا ہے۔
پاکستان کے عزیز عوام!
ایران اور اس ملک میں وقوع پذیر اسلامی انقلاب پاکستان کے عزیز عوام کو دو عظیم مسلمان ملتوی کے درمیان برادری اور گہری دوستی کی یاد دلاتا ہے‘ جو کہ الطاف الٰہی ‘ اتحاد کی رسی کو تھامنے اور دونوں ممالک کے رہنمائوں کی گہری بصیرت کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام نے اسلام اور قرآن کی تعلیمات عالیہ سے الہام لیتے ہوئے اسلامی حکومتوں اور ہمسایہ ممالک یساتھ دوستی اور تعاون کو آئین کی تصریحات کی بنا پر اپنی پالیسیوں کی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ حکومت اسلامیہ جمہوریہ ایران نے اس بنیاد پر اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کیساتھ تعلقات اور ہمہ پہلو سیاسی اقتصادی اور ثقافتی تعاون میں وسعت اور گہرائی کو اپنے ایجنڈے پر رکھا ہے اور یوں گذشتہ چند سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون میں اضافے اور شکوفائی کے عملی مظاہر دیکھنے میں آئے ہیں…؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہے سب کا نبیؐ‘ دین بھی‘ ایمان بھی ایک
تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ ترقی اور سلامتی اسلامی جمہوریہ ایران کی وسیع تر خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے۔ طویل سیاسی اور ثقافتی سرحدوں اور ایک مسلمان ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے پاکستان کو اس ڈاکٹر این میں خاص حیثیت حاصل ہے۔ پائیدار اور ترقی یافتہ پاکستان کا استحکام ایک خیز خواہ ہمسایہ کے طور پر ایران کیلئے اطمینان خاطر کا باعث ہو گا۔ خوش قسمتی سے دونوں ممالک کے تعلقات کی تاریخ بھی مختلف شعبوں میں یکجہتی اور ہمراہی کی گواہ رہی ہے۔ 1947ء میں ایران ان پہلے ممالک میں تھا جنہوں نے پاکستان کو نو ظہور خداداد اسلامیہ مملکت کے طور پر تسلیم کیا…ع
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
یہی یکجہتی اور ہمراہی تمام شعبوں میں بخوبی ظاہر ہوئی اور دونوں ممالک کے رہنمائوں کی گہری بصیرت اور تصور‘ تہران اور اسلام آباد کے سنجیدہ سیاسی عزائم کے ذریعے دوطرز تعاون اور توسیع کیلئے مناسب فضا قائم ہوئی جس سے حاصل ہونیوالی نیک خواہشات اور تصورات کو دنوں عوام کی خوشحالی‘ سلامتی اور تعلقات کیلئے کام میں لایا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے رہنمائوں کے ایک دوسرے ممالک کے دوروں نے دونوں ملتوں کے درمیان تعلقات میں نئی جہتیں پیدا کی ہیں جن سے ہمہ جہتی تعلقات کو پہلے سے زیادہ مستحکم بنیاد مہیا ہوئی اور دونوں مسلمان ممالک کے تعلقات میں پیش رفت کیلئے حکومت اسلامیہ جمہوریہ ایران کے سیاسی عزم و اہتمام کو ثابت کیا۔
دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود کے 2008-9 دوطرفہ دورے‘ دوطرفہ تعلقات میں نئے دور کا آغاز مظہر ہیں۔ گذشتہ سال مارچ اور جون میں دونوں ممالک کیلئے ایک غیر معمولی موقع اس وقت پیدا ہوا جب صدر پاکستان عزت مآب آصف علی زرداری نے دو مرتبہ ایران کا دورہ کیا اور انقلاب اسلامی ایران کے رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای اورعزت مآب جناب ڈاکٹر محمود احمدی نثراد صدر محترم اسلامی جمہوریہ ایران کیساتھ ملاقات کی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے عوام کی خواہشات اور عزم صمیم کے سلسلے میں وسیع تر تعلقات میں وسعت اور پھیلائو کیلئے ضروری بنیادیں فراہم ہوئیں۔ ان دوروں سے تعلقات میں قابل لحاظ سرعت پیدا ہوئی جسکے مثبت اور تعمیری آثار علاقائی اور عالمی سطح پر ظاہر ہوئے ہیں۔
دونوں ممالک کے صدور نے ایران اور پاکستان کے درمیان انرجی کے شعبہ میں اسٹریٹجک تعاون کو دونوں ممالک کے درمیان گیس پائپ لائن معاہدہ کی صورت میں 24 مئی 2009ء کو علمی شکل دے دی۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات میں بنیادی انقلاب کی راہ ہموار کریگا اور پاکستان کی ترقی و پیش رفت اور پاکستان کے عوام کی خوشحالی‘ رفاہ اور سعادت کا باعث بنے گا۔ انرجی پاکستان کی ٹھوس ضرورت اور اسکی ترقی و سلامتی کی بنیاد ہے اسلامی جمہوریہ ایران پاکستانی معاشرے کے اس چیلنج کو مسحسوس کرتے ہوئے پاکستان کی اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے تیار ہے۔ ایران سے پاکستان کو بجلی کی سپلائی دونوں ممالک کے درمیان ریل‘ سڑک اور دذوسرے مواصلاتی ذرائع کی ترقی میں اشتراک عمل بھی ایسے موضوعات ہیں جو کہ بنیادی ترجیح کے طور پر زیر غور ہیں اور توقع کی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں ان کیلئے ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔
پاکستان کو مسلمان ہمسایہ ملک کے طور پر ‘ اسلامیہ جمہوریہ ایران کی وسیع تر خارجی پالیسی میں خصوصی مقام حاصل ہے۔ پاکستان کی پائیدار سلامتی‘ استحکام اور ہمہ جہتی ترقی اسلامی جمہوریہ ایران کی دیرینہ آرزو ہے اور ہم اس کیلئے پاکستان کے عوام ری رفاہ اور سعادت کی خاطر کسی بھی مساعی سے دریغ نہیں کرینگے۔ اسلامی جمہوریہ ایران‘ پاکستان سے متعلق تعمیری پالیسی کو سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے باوجود جاری رکھے گا اور اسے یہ مکمل اطمینان ہے کہ اس بھاری ذمہ داری سے حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مصمم ارادوں اور مساعی اور پاکستان کے خیر خواہ عوام کی دعائوں سے عہدہ برآ ہو گا اور جناب حشمت اللہ عطار زادہ اسلامیہ جمہوریہ ایران کے پشاور قونصلیٹ کے کمرشل اتاشی جو کہ 13 نومبر 2008 کو اغوا کر لئے گئے بہت جلد آزادی حاصل کر کے اپنے خاندان کے پاس واپس پہنچیں گے۔ دہشت گردی ایک خطرناک اور شرمناک مسئلے کے طور پر تمام انسانی معاشروں پر اثر اندا ہوئی ہے اور گذشہ چند سالوں میں پاکستانی عوام نے دہشت گردی کی وجہ سے بے شمار نقصانات اٹھائے ہیں۔ یہ امید باقی ہے کہ پاکستان اپنی تاریخ کے احساس دور سے کامیابی سے گزر کر پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن ہوگا۔
پاکستانی بھائیو اور بہنو!
آخر میں اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومتوں کی برادرانہ تعلقات میں پیش رفت اور ایران پاکستان کی دو قوموں کی خوشحالی اور توفیقات میں روز بروز اضافے کیلئے خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں…؎
وقت فرصت کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے