حکمرانوں کا جہاں

Feb 11, 2013

ڈاکٹر حسین احمدپراچہ

گزشتہ شب ایک محفل میں ایک وفاقی وزیر سے اتفاقاً ملاقات کا موقع ملا۔ یہ وفاقی وزیر پنجاب کو فتح کرنے کے مشن پر نکلے ہیں۔ وہ نہایت اطمینان اور انہماک کے ساتھ پنجاب میں اپنی انتخابی فتوحات کا نقشہ پیش فرما رہے تھے۔ اس نقشے میں دو تہائی سیٹیں وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کو دے چکے ہیں۔ باقی ماندہ کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ بعض دوسری پارٹیاں کامیابی حاصل کریں گی مگر مسلم لیگ (ن) کو کوئی خاص انتخابی فتح نہیں ملے گی۔ وزیر موصوف کے انتخابی منصوبے اور تجزیے سے قطع نظر مجھے حیرانی یہ ہوئی کہ ان کے سارے فسانے میں بیچارے عوام کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس دوران صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری اسلام آباد سے لاہور تشریف لے آئے ہیں۔ وہ ایک قصر سے نکلتے ہیں اور دوسرے قصر میں جلوہ افروز ہو جاتے ہیں۔ یہ حکمران محلات سے محلات تک سفر کرتے ہیں۔ بُلٹ پروف جہازوں اور گاڑیوں میں اُڑے پھرتے ہیں بلکہ گاڑیاں تو ان کے وسیلہ سفر میں نہیں آتیں۔ ان کا سفر جہازوں سے ہیلی کاپٹروں تک محدود رہتا ہے۔ جناب آصف علی زرداری اور ان کی ٹیم کو کوئی پروا نہیں کہ کراچی جلے یا خاکم بدہن جل کر راکھ ہو جائے۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ روزانہ ایک آدھ نہیں درجنوں اور سینکڑوں افراد کو نشانہ کشی یا دہشت گردی میں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ آٹا بارہ روپے فی کلو کے بجائے 40 روپے فی کلو ہو جائے۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ سی این جی سٹیشنوں پر سینکڑوں گاڑیوں کی قطاریں لگ جائیں اور کئی کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد بھی لوگوں کو گاڑیوں کیلئے گیس نہ ملے۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ ملک کی آدھی آبادی کو قوتِ لایموت بھی حاصل نہیں۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ بندہ¿ مزدور کے ہی نہیں ہر بندے کے اوقات کتنے تلخ ہیں۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ ہر ٹریفک سگنل پر فقیروں کی قطاریں بھیک مانگتیں اور ایٹمی قوت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کی بے حسی کا پول کھول دیتی ہیں۔
کوئی اپوزیشن پارٹی نہیں یا مخالف قائدین نہیں بلکہ سپریم کورٹ اور سٹیٹ بنک آف پاکستان جو کچھ کہہ رہے ہیں۔ ہمیں جس طرح سے خبردار کر رہے ہیں حکمران اس طرف کان دھرنا تو دور کی بات دھیان دینے کو تیار نہیں وہ اپنا موج میلہ کر رہے اور اگلے انتخابی دنگل کیلئے ڈھول پیٹ رہے ہیں اور پنجاب میں گھر گھر پی پی کا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔ ان کی ذرا سنئے کہ سپریم کورٹ کیا کہہ رہی ہے کہ کراچی جل رہا ہے۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ صوبائی و وفاقی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس کے 400 افسران سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ جب محافظ رہزن بن جائیں تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔ کراچی کو حکمران جماعتوں کا اتحادِ ثلاثہ مقتل بنانے پر تُلا ہوا ہے بلکہ وہ اسے مقتل سے مقابر بنا چکا ہے اور اسے کچھ پروا نہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر۔ پاکستان کا تجارتی دارالحکومت صنعت، معیشت اور تجارت کا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔
کراچی کے تاجر اور صنعتکار بار بار واویلا کرتے ہیں۔ کبھی بھتہ خوروں کے خلاف ڈٹ جانے کا عزم کرتے ہیں۔ وہ قبضہ مافیا کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے ہیں اور پھر اتنے سنگین حالات میں جام شہادت نوش کرتے ہیں اور بالآخر ان کا آہنی عزم اور ان کا پختہ ارادہ مافیاﺅں کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہے۔ اب ایک بار پھر تنگ آ کر کراچی کے تاجروں نے حکومت کی بے حسی، بے خبری کے خلاف آل تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر کی زیر قیادت کراچی پریس کلب پر تاجروں نے زبردست مظاہرہ کیا۔ کراچی کے امن اور مردہ معیشت کا تابوت نکالا اور اس پر علامتی فاتحہ خوانی کی۔ تاجروں نے صوبے میں آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی تعیناتی یا گورنر راج کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان چیخ پکار کر رہا ہے کہ حکومتی قرضے حد سے باہر معاشی حالات مزید خراب اور مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ گئے ہیں۔ اب تک زرمبادلہ جتنا بھی آ رہا ہے وہ بیرون ملک پاکستانیوں کے ذریعے آ رہا ہے۔ یہ وہ پاکستانی ہیں کہ جنہوں قرض اتارو ملک سنوارو کے نعرے پر لبیک کہتے ہوئے کروڑوں ڈالر وطن پر نچھاور کر دئیے تھے۔ ہم خود ایک طویل عرصے تک بیرون ملک مقیم رہے ہیں۔ ہمیں بیرون ملک پاکستانیوں کے جذبات و احساسات اور ان کی نفسیات کا بخوبی علم ہے۔ وہ اپنے وطن کیلئے ہر ممکن بلکہ ناممکن قربانی بھی دینے کو تیار رہتے ہیں۔ میں بڑی ذمہ داری کے ساتھ قوم کو بتا رہا ہوں کہ اگر حکمرانوں نے اپنی روش کو نہ بدلا اور ملکی حالات کو اصلاح کے راستے پر نہ ڈالا تو بیرون ملک پاکستانی اپنی بچتوں کو انہی ملکوں کی بلاسود سرمایہ کاری سکیموں میں لگا دیں گے۔
کراچی کے بعد اب پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے بحریہ ٹاﺅن میں ایک سو کنال پر مشتمل بلاول ہاﺅس تعمیر کیا جا چکا ہے اور اب وہ اپنے مکینوں سے آباد ہو چکا ہے۔ صدر آصف علی زرداری پنجاب میں گھر گھر پی پی کا جھنڈا لہرانے کی نوید بھی سُنا چکے ہیں مگر انہوں نے اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں ایک بھی ایسا قدم نہیں اٹھایا کہ جس سے اس ملک کے چھ سات کروڑ بلاولوں کیلئے کسی ”بلاول ہاﺅس“ کا نہیں کم از کم ان کیلئے ٹین کی چھت کا ہی بندوبست ہو جاتا۔ اس دورِ اقتدار میں پیپلز پارٹی کا وہ عذر بھی ناقابل قبول بنا دیا جو وہ ٹرم پوری نہ ہونے پر وہ پیش کیا کرتے تھے۔ اب تو پیپلز پارٹی کو مرکز میں اقتدار ملا، تین صوبے بھی ان کے زیر نگیں رہے مگر انہوں نے قوم کو روزگار کے بجائے بے روزگاری دی۔ انہوں نے قوم کو روشنی کے بجائے اندھیرا دیا۔ انہوں نے امن کے بجائے بد امنی دی۔ اب اگر اس حکومت کا ایک ایک وزیر اربوں کا مالک بن بیٹھا ہے تو اس سے عوام کو کیا فائدہ۔ فائدہ کیسا یہ لوٹ مار کی ساری رقم قرضوں کی مے ہے جس مے کے خم خم عاقبت نااندیش حکمران لنڈھائے جا رہے ہیں اور ان کا یقین دیدنی ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ووٹ بنک کو کچھ نہیں ہوا۔ لوگ اگلے انتخابات میں بھی ہمیں ہی ووٹ دیں گے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کا یہ کہنا بجا ہے کیونکہ گزشتہ چالیس بیالیس برس سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔
اب یہ ووٹروں کا فرض ہے کہ وہ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کریں۔ اچھی اور بُری حکمرانی کا فرق محسوس کریں۔ اب اگر ایک بار پھر ووٹروں کی اکثریت پیپلز پارٹی کو ووٹ دے دیتی ہے اور انہیں اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق سونپ دیتی ہے۔ انہیں بدامنی اور بےروزگاری عام کرنے کا لائسنس دے دیتی ہے۔ انہیں ملک کے مستقبل سے کھیلنے کی چھوٹ دے دیتی ہے تو پھر بعد میں انہیں شکوہ کرنے یا واویلا کرنے کا کوئی حق نہیں ہو گا۔ پھر انہیں صدائے احتجاج بلند کرنے کا کوئی اخلاقی و سیاسی استحقاق نہیں ہو گا۔ ووٹروں کو اب جذباتی وابستگی‘ سیاسی رومانویت‘ پرانی روایات اور ذات برادری سے بلند ہونا ہو گا۔ جب ووٹر درست فیصلہ کرنے لگیں گے، جب وہ درست سمت میں آگے بڑھنے لگیں گے، جب وہ کھرے اور کھوٹے میں حقیقی تمیز کرنے لگیں گے تو پھر پاکستان میں یقیناً تبدیلی آئے گی۔ یہ حقیقی تبدیلی ہو گی۔ یہ پائیدار تبدیلی ہو گی۔ اس تبدیلی کے بعد پاکستان آگے ہی آگے بڑھتا جائے گا۔

مزیدخبریں