چند باتیں میاں صاحب سے!

 سیاستدانوں کی مہربانیاں کم اور عوام کی قدر دانیاں زیادہ ہیں، جب تک ان میں توازن نہیں آتا تب تک خدمت والی جمہوریت ممکن نہیں!!!
جوڑ توڑ کی سیاست اپنے شباب پر ہے۔ میاں نوازشریف نے سندھ کا کامیاب ترین دورہ کیا اور ثمر کے طور پر ن لیگ کو سندھ میں جامع اتحاد (گرینڈ الائنس) ملا ہے۔ یقینا یہ سندھی جامع اتحاد پی پی پی کو سندھ میں مشکلات سے دوچار کرے گا۔ ن لیگ، مسلم لیگ (ف) جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جمعیت علمائے اسلام کے کارکنان سندھ کے کوچہ و بازار میں موجود ہیں اور اسی نوخیز الائنس کی تجربہ کار جماعت، جماعت اسلامی اور سنی تحریک کراچی میں صرف پی پی پی کو نہیں آج کے موجودہ حکومتی اتحادیوں کو بھی دن میں تارے دکھا سکتا ہے لیکن یہ الائنس اس وقت تک اتنا موثر نہیں ہو سکتا جب تک سندھ سے نکل کر ملکی سطح پر نہ ہو۔ تاحال جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ملکی سطح پر سیاسی اتحاد میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ جماعت اسلامی کی ہچکچاہٹ کی سمجھ تو آتی ہے کہ اس کی شوریٰ کا کسی نتیجہ تک پہنچنا ضروری ہے اور ابھی تک جماعت اسلامی کی داخلی بحث و تمحیص چل رہی ہے کیونکہ جماعت اسلامی کا ایک بڑا دھڑ ن لیگ سے سیاسی اتحاد کی مخالفت کر رہا ہے کارکنان سے ارکان تک کچھ لوگ تحریک انصاف سے سیاسی اتحاد کے خواہاں ہیں۔ ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ، جب میاں نواز شریف پی پی پی کو شکست دینے کےلئے اس قدر پاپڑ بیل رہے ہیں تو ق لیگ کی مرکزی قیادت کو اعتماد میں لے کر الیکشن 2013ءکو ”ون سائیڈڈ“ کیوں نہیں کر دیتے؟
اگر سچ اور اصول کو لیں تو پھر میاں صاحب کو ق لیگ کے وہ سب ق لیگی بھی نہیں لینے چاہئے تھے جو میاں نواز شریف کو پلک جھپکتے چھوڑ کر جنرل مشرف اور شجاعت حسین کیمپ میں چلے گئے تھے، جنہوں نے ثابت کیا تھا کہ انہیں صرف اقتدار اور کرنسی عزیز ہے، وہ نیب اور آمر کے سامنے سرتسلیم خم ہو گئے تھے اگر انہیں لیا جا سکتا ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ، اگر ہمایوں اختر اور حامد ناصر چٹھہ جیسے لوگوں کو واپس لیا جا سکتا ہے، اسی طرح طارق عظیم جیسے بندے کو لیا جا سکتا ہے جو مشرف حکومت میں دن رات میڈیا سے مشرف کی مدح سرائی کرتا تھا تو پھر ق لیگ کے سربراہان اور شیخ رشید سے مذاکرات اور مثبت پیش رفت کیوں نہیں؟ کیا چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی سے مذاکرات کرنے کی پاداش میں یہ خوف تو نہیں کہ چودھری پھر پنجاب یا وفاق سے حصہ مانگیں گے؟ ماضی میں اختلافات کی وجہ بھی تو یہی تھی نا کہ چودھری برادران پنجاب کی وزارت اعلیٰ چاہتے تھے۔ ہاں! اگر پی پی پی یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف، اسلم رئیسانی، قائم علی شاہ جیسے لوگوں کو بڑے بڑے منصب دے سکتی ہے، پھر لطیف کھوسہ اور مخدوم محمود وغیرہ کو گورنری دے سکتی ہے تو پھر میاں نواز شریف نے ہیوی مینڈیٹ کے دور میں ایسا کیوں نہیں کیا، اور آئندہ کیلئے بھی ایسا کیوں سوچ رہے ہیں؟ ضروری نہیں وزارت اعلیٰ سے وزارت عظمیٰ سبھی ایک گھر میں ہوں۔ اگر پی پی وزارت اعلیٰ سندھ بھی بھٹوﺅں تک محدود رکھتی تو آج دس بارہ اتحادیوں کی اپوزیشن کو ضرورت نہ پڑتی، سندھ سے پی پی پی ختم ہو چکی ہوتی۔ سیاست کچھ لو کچھ دو ہی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ ابھی وقت ہے کہ آنے والے الیکشن میں وفاقی حکومت پکی کرنے کےلئے سو سنار کی، کے بجائے ایک لوہار کی والا کلیہ اپنایا جائے۔ چودھری برادران کو راضی کرنا مشکل نہیں۔ ورنہ ن لیگ کےلئے اگلا الیکشن بھی خواب ہی چھوڑ جائے گا مطلوبہ تعبیریں نہیں ملیں گی!!!
باخبر ذرائع اور ق لیگ کے مخلصین کا خیال ہے کہ آصف علی زرداری سندھ، کے پی کے، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں محنت کر رہے ہیں جبکہ سنٹرل پنجاب، کراچی اور چند بلوچ علاقوں کو اتحادیوں کے زور بازو پر چھوڑ رکھا ہے۔ لیکن سنٹرل پنجاب میں اس طرح آصف علی زرداری زو ر نہیں لگا رہے جس طرح وہ پی پی پی کے لئے لگاتے ہیں۔ بہر حال ق لیگ والے بھی حکومت میں بیزار بیٹھے ہیں اگر میاں نواز شریف چاہیں تو بڑا ہاتھ مارا جا سکتا ہے، نہیں ماریں گے تو پچھتائیں گے۔ صدر آصف علی زرداری بھی دو دن سے لاہور میں ڈیرے ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں اور دن رات جوڑتوڑ میں مصروف ہیں۔ سوئس حکام کی طرف سے کیس نہ کھولنے پر صدر زرداری زیادہ پراعتماد ہو گئے ہیں۔ بہرحال ان پر سوئس کیس کا خاصا دباﺅ تھا۔ اس موقع پر سوئس حکام کی طرف سے کیس نہ کھولنے کا اعلان جہاں زرداری صاحب کےلئے باعث تقویت اور باعث مسرت ہے لیکن سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ضرور پریشان ہوں گے کہ آخر ان کے ساتھ وہ انہونی کیوں ہو گئی جبکہ زرداری صاحب اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کےلئے تو سب تدبیریں شادمانی و کامرانی کا باعث بن رہی ہیں۔ اب یوسف رضا گیلانی کےلئے دو ہی آپشن بچ ہیں صوبہ ”جنوبی پنجاب“ پر سیاست کریں اور بچوں کو بھی جتوائیں یا پھر بیٹھے لکیر پیٹتے رہیں۔
بات چل رہی تھی، میاں نوازشریف کی سیاست کی، تو اس ضمن میں عرض ہے کہ صرف خواجہ آصف ، خواجہ سعد رفیق یا چودھری نثار علی خاں کے بل بوتے پر مرکز نہیں جیتا جا سکتا یا پھر ٹی وی پر بولنے والے چند اچھے لوگوں سے بھی نہیں۔ یہ درست ہے کہ زرداری ازم کی ”عالمگیر مخالفت“ نواز لیگ کیلئے باعث اطمینان اور فرحت بخش ہے لیکن ذہن نشین رہے کہ زرداری صاحب کے پاس چودھری شجاعت حسین، نوید قمر، مخدوم امین فہیم، خورشید شاہ، اعتزاز احسن، فاروق نائیک اور اسفند یار ولی خان جیسے سیاسی اور بیدار مغز دماغ موجود ہیں۔ لاہور میں چلائی جانے والی میٹرو بس اور اس کا افتتاح بھی سود مند سہی لیکن بالغ نظر سیاستدان کی ضرورت ہے ابھی، ورنہ پنجاب ہی تک محدود رہ جانے کے خدشات واضح دکھائی اور سنائی دے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو خوشامد پسندوں اور خود پسندی کے حصار سے نکل کر مزید سوچنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ سیاست میں صرف بھانجوں، بھتیجوں اور بھائیوں پر تکیہ کافی نہیں ورنہ ہیوی مینڈیٹ سے ہاتھ لگی حکومت بھی چھن جایا کرتی ہے۔ کوئی گرینڈ الائنس بنانا ہی ہے تو مرکزی سطح پر اور چودھریوں کو ساتھ لے کر ورنہ باقی سب افسانے ہیں۔ یاد رکھئے تحریک انصاف جہاں پی پی پی کو ٹف ٹائم دے گی وہاں ن لیگ و دیگر ووٹوں کو تقسیم کر کے ن لیگ کے منیڈیٹ کا حشر نشر بھی کر سکتی ہے یعنی جیتے گی نہیں تو ووٹ ضرور ضائع کر دے گی اور عوام پر زیادہ مہربانیوں کی ضرورت ہے، یہ سب سیاستدان سوچیں!!!

ای پیپر دی نیشن