بریگیڈئر(ر) انعام الحق انتقال کرگئے۔
لاہور کے ایک کونے سے اٹھ کر بریگیڈئر انعام الحق اس جہان جاچکے ہیں جہاں سے واپسی اب ممکن نہیں ،ملک کو ناقابل تسخیر بنانے میں کردارادا کرنے والا ہیرو چل بسا اور ہمارے سیاستدان اسی کے گھر کے قریب بیٹھ کر....ع
” بلونی تیرا لال گھگھرا“
پر اپنا رانجھاراضی کرتے رہے۔
پاکستانی ایٹمی پروگرام بریگیڈر انعام کے بغیر ہمیشہ ادھورا ہے۔ڈاکٹر اے کیو خان کے خلاف جب ہالینڈ میں مقدمہ چل رہا تھا تو انہوں نے ہی ایس ایم ظفر کو ہالینڈ میں مقدمہ لڑنے کیلئے بھیجا تھا، مقدمہ ختم ہونے پر ہی ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان آسکے تھے پھر جب ایٹم بم بنانے کیلئے ”میرا جنگ سٹیل“ کی ضرورت پڑی تو انعام الحق نے ایک فرم بنا کر یورپ سے میراجنگ سٹیل حاصل کرکے ڈاکٹر اے کیو خان کے سپرد کی،اس راز کو ایک شخص نے فاش کردیا تھا جس کے باعث بریگیڈئر انعام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا یورپ اکثر آناجانا ہوتا تھا۔1987 میں جب جرمنی گئے تو یورپ کی فضا میں انکے طیارے کو امریکی کمانڈوز نے اپنے گھیرے میں لے لیا اور طیارے کو زبردستی اتار کر انہیں ایک دوسرے امریکی فوجی طیارے میں سوار کرکے امریکہ لے گئے ۔امریکہ کو صرف اس بات کا غصہ تھا کہ انہوں نے ایٹم بم میں کردار کیوں ادا کیا ، امریکہ میں انہیں سواسال جیل کاٹنے کے بعد ڈی پورٹ کردیا گیا انہیں جس کوٹھری میں بند رکھا گیا وہ 5فٹ اور6سات انچ تھی جبکہ بریگیڈئر انعام کا قد 6فٹ سے زیادہ تھا۔وہ بھی محسن پاکستان تھے جنہیں ہم نے بھلا دیا۔پرویز مشرف انکے شاگرد تھے وہ انہیں اکثر ملنے آتے تھے لیکن مشرف نے جب ڈاکٹر اے کیو خان کو ٹی وی پر بلا کر رُسوا کیا تو اس کے بعد انہوں نے پرویز مشرف کوملنا چھوڑ دیا تھا،ڈاکٹر قدیر سے اسقدر محبت تھی کہ انہوں نے ان کی تصویر عمر بھر اپنے کمرے میں سجائے رکھی لیکن بد قسمتی سے سیاستدان تو دور کی بات ہے محسن پاکستان بھی اپنے محسن کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے۔ہمارا میڈیا جو ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنانے کا ماہر ہے وہ بھی سویا رہا۔8فروری کو بریگیڈئر انعام الحق کا انتقال ہوا تھا تو پاکستان کے 2درجن کے قریب قومی اخبارات میں سے سوائے ایک اخبار کے کسی نے بھی انتقال کی خبر شائع نہیں کی۔ عربی کہاوت ہے قوم کا محسن قوم کا سردار ہوتا ہے لیکن ہم ایک محسن کش قوم ثابت ہوئے ہیں۔ماﺅزے تنگ نے کہا تھا جو شخص اپنے محسن سے وفا نہیں کرتا وہ کسی سے بھی وفا نہیں کرسکتا۔ استادامن نے سچ کہا ہے....
دامن! چاہنا ایں جے تینوں نہ ضرب لگے
جاہلاں وچ، دانائی تقسیم نہ کر
٭....٭....٭....٭....٭
شاہ رخ جتوئی کی عمر19سال سے زیادہ ہے، میڈیکل بورڈ کامتفقہ فیصلہ۔
پہلے میڈیکل بورڈ نے مک مکا کرکے جو گند ڈالا تھا انہیں ذرا کسی کمہار کے سپرد کریں تاکہ وہ ان گدھوں کی عقل کو ذرا ٹھکانے پر لگائیں۔عینی شاہدوں نے جب قاتلوں کو پہچان لیا ہے تو پھر قانون کے مطابق قاتل کو تارا مسیح کے سپرد کرنیکا فیصلہ کردیناچاہئے۔
دوچار خونخوار بھیڑئیے اگر مینار پاکستان پر لٹکا دئیے جائیں تو پھر سارے شیر چوہے بن کر بِلوں میں گھس جائیں گے۔کراچی میں تو ہر روز لاشیں گر رہی ہیں دراصل گورنر راج تو وہاں لگناچاہئے تھا لیکن یہ تو رئیسانی کے گھٹنوں میں ہی آکر بیٹھا ہے۔سپریم کورٹ آرڈر پر آرڈر لگوا رہی ہے لیکن حکمران ٹس سے مس نہیں ہوپارہے ۔حفیظ جالندھری نے کہا تھا....
نظر آتی نہیں صورت حالات کوئی
اب یہی صورتِ حال نظر آتی ہے
کراچی میں موت ریوڑیوں کی طرح بٹ رہی ہے اور عوام کی نفرتوں کا لاوا پک رہا ہے اگر یہ صورتحال اسی ڈگر پر چلتی رہی تو پھر حکمرانوں کا حال صدام حسین کے مجسموں جیسا ہوگا تب بلٹ پروف گاڑیاں بچا سکیں گی نہ ہی بڑے محل ،کیونکہ بپھرے ہاتھیوں کو کنٹرول کرنا ان دورخِ سیاستدانوں کا کام نہیں۔
٭....٭....٭....٭....٭
ینگ ڈاکٹرز کے کیمپ پر پولیس کا دھاوا۔
ینگ ڈاکٹرز نے میٹرو بس کی افتتاحی تقریب کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کا اعلان کر رکھا تھا اس بنا پر پولیس نے ہڑتالیوں کی گرفتاری کرڈالی۔ ہڑتالی ڈاکٹروں نے تو اتنے دنوں سے کیمپ لگا رکھے ہیں لیکن کل تک نہ شوکت بسرا وہاں گئے نہ ہی تحریک انصاف کی خواتین نے ان سے اظہار یکجہتی کیا۔ ہم تو انہی صفحات میں ہڑتالی ڈاکٹرز کو بارہا کہہ چکے ہیں کہ بیٹھ کر معاملات حل کریں کسی بھی مسئلے کا حل مذاکرات ہیں لیکن وہ ضد پر اترے ہوئے ہیں انہیں معلوم ہی نہیں کہ پپو سے ضد نہیں کرتے کیونکہ وہ خود بڑا ضدی ہے آخر یہی ہونا تھا جس کا پہلے سے خدشہ ظاہر کیاجارہا تھا۔ ینگ ڈاکٹرز تو پڑھے لکھے نوجوان مسیحا ہیں اُنہیں بھی معلوم ہے کہ کون اُن سے خلوصِ دل سے ہمدردی رکھتا ہے اور کون موقع کا فائدہ اٹھاتا ہوا کیمروں کو سامنے جلوہ گر ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔شوکت بسرا نے بھی شہیدوں میں نام لکھوا لیا ہے۔دو قطرے لہو دیکر ٹکٹ پکی کروالی ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭