ایل پی جی کوٹہ کیس، تحقیقات میں تاخیر پر ایف آئی اے کی سرزنش

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ کے لاجر بنچ نے ایل پی جی کوٹہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تاحال عملدرآمد نہ کرنے پر اور تحقیقات میں تاخیر پر  ایف آئی اے حکام کی سخت سرزنش کرتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا ہے اور 13فروری کو رپورٹ طلب کر لی ہے۔  جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ایف آئی اے کام نہیں کرسکتا تو تفتیش کسی اور کو دے دیتے ہیں جبکہ جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ تحقیقات کا معاملہ اب تک صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہے، عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تو ایف آئی اے کے لاء افسر ظہیر گوندل نے عدالت کو بتایا کہ عملدرآمد کیس میں تحقیقات کے دوران متعلقہ اراکین پارلیمنٹ کو ان کے بیانات قلمبند کروانے کے لئے کہا گیا ہے مگر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ تحقیقات کا معاملہ اب تک صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہے، عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ اگر ایف آئی اے کام نہیں کرسکتا تو تفتیش کسی اور کو دے دیتے ہیں، ظہیر گوندل نے بتایا کہ جے جے وی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ایڈریس معلوم نہیں ہو رہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ یہ ایڈریس سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمشن ( ایس ای سی پی )سے 50روپے کے عوض مل سکتے ہیں، دوران سماعت نظر ثانی درخواست میں اعتزاز احسن پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہاکہ اصل کیس میں خواجہ احمد طارق رحیم پیش ہوئے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ کیس چیف جسٹس افتخار چودھری کا بنچ سن رہا تھا اور وہ (اعتزاز احسن) ان کے بنچ میں پیش نہیں ہوتے تھے اس لئے خواجہ طارق رحیم پیش ہوئے اب نظرثانی درخواست میں انہیں پیش ہونے کی اجازت دی جائے اور عدالت خصوصی حالات میں پہلے بھی ایسا کر چکی ہے جس پر عدالت نے ان سے کہاکہ وہ آئندہ سماعت پر خصوصی حالات کے حوالے سے عدالت کی مزید معاونت کریں جس کے بعد سماعت 13فروری تک ملتوی کردی گئی۔ آئی این پی کے مطابق اعتزاز احسن نے ایل پی جی نظرثانی کیس میں خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ کی جگہ پیش ہونے کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مفادعامہ کے کیس میں نئے چیف جسٹس کے سامنے پیش ہونا چاہتے ہیں، ماضی میں اس مقدمے کی سماعت سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کر رہے تھے جن کے سامنے وہ پیش نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اس پر جسٹس ناصر الملک نے کہاکہ سپریم کورٹ کے قواعد نظرثانی کیس میں وکیل تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتے اگر ایسی کوئی مثال ہے تو پیش کریں۔

ای پیپر دی نیشن