لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ چوری نہ روک کر مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بجلی مہنگی ہونے پر چوری بھی ہو گی اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے جبکہ آج ہی وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ فریال تالپور کے حلقے نوڈیرو میں 98 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ عابد شیر علی نے کہا کہ ملک کے کسی حصے میں مفت بجلی نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بجلی چوری ختم نہیں ہو گی ملک ترقی نہیں کریگا ۔ بجلی چوری کا خمیازہ سارے ملک کو بھگتنا پڑتا ہے۔باتیں لاہور ہائیکورٹ کی ہوں یا عابد شیر علی کی دو سو فیصد درست ہیں اور کوئی بھی اہل عقل ان باتوں کو چیلنج کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ سچ نہیں بلکہ ڈبل سچ ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے قوم لوڈشیڈنگ کے جس عذاب کو بھگت رہی ہے یوں تو اسکی دیگر بھی کئی وجوہات گنوائی جاتی ہیں مگر شاید سب سے بڑی وجہ بجلی چوری ہی ہے۔ کئی باخبر دوست اس سے بھی بڑی وجہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کے حکومتوں کیساتھ ہو چکے ہوئے معاہدوں کی شقوں کو قرار دیتے ہیں انہی شقوں نے پورے ملک اور عوام کو یرغمال بنا لیا ہوا ہے حکومت اپنے طور پر بے بس نظر آتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے قائم ہونیوالی سبھی حکومتیں انہی نجی کمپنیوں کی کئی پتلیاں بنی رہی ہیں۔
خواجہ آصف منظر سے غائب اوجھل ہوئے ہیں ان والا سخت انداز عابد شیر علی نے اپنایا ہوا ہے دونوں نے ابتدا خیبر پختونخواہ سے کی کہ وہاں بجلی چوری کی انتہا ہو چکی ہے۔ عابد تو یہاں تک آگے بڑھ گئے اور کہہ گئے کہ KPK میں بجلی چوری وہاں کے وزراء کی سرپرستی اور نگرانی میں ہو رہی ہے۔ عابد شیر علی کے اس بیان کا جو ردعمل سامنے آنا چاہئے تھا نہ آیا اور اس مطلوبہ و متوقع ردعمل نے واقعی ایک سوال کھڑا کر دیا ہوا ہے اور لوگوں کو یہ جاننے میں دقت محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ KPK میں واقعی وسیع پیمانے پر بجلی چوری ہوتی ہے اور وہ بھی دھڑلے کیساتھ‘ ابھی تو یار دوست KPK پر انگلیاں اٹھا رہے تھے کہ عابد شیر علی سندھ پر برس پڑے ہیں اور فریال تالپور کا نام لیکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ PPP کی لیڈر شپ سندھ میں بجلی چوری کی سرپرستی کر رہی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ عابد شیر علی بغیر ثبوتوں کے سیاسی مخالفین پر بجلی چوری کرنے کے الزامات عائد کر سکتے ہیں۔ ہمیں اتنا تو مان لینا چاہئے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کتنا اچھا اور مناسب ہوتا کہ KPK اور سندھ کا ذکر کرنے کیساتھ پنجاب کا تذکرہ بھی کر دیا جاتا کیا پنجاب میں بسنے والے فرشتے ہیں۔ نہیں جناب یہاں بھی دیگر صوبوں کی طرح انسان ہی بستے ہیں انسان اور گناہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ پنجاب میں بھی بجلی چوری کی بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں۔ کا کہنا ہے کہ کیا پنجاب کے وزراء اور مشیر کیا مقدس گائے ہیں۔ میں عابد شیر علی کی طرح کسی کا نام لیکر اسے ٹارگٹ نہیں کروں گا البتہ اتنا ضرور کہتا ہوں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں دوسرے صوبوں میں بجلی چوروں کی سرپرستی اگر وہاں کے وزراء کرتے ہیں تو مان لیجئے کہ پنجاب میں بجلی چوری کے سب سے بڑے سرپرست واپڈا والے خود ہیں۔ پنجاب میں چوری ہونیوالی 98 فیصد بجلی واپڈا افسروں اور اہلکاروں کی مرہون منت ہے۔ میں اپنے حکمرانوں اور واپڈا حکام سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ بجلی چوری کروانے کے الزام میں واپڈا اہلکاروں کیخلاف کبھی پرچہ کٹتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ جب جب واپڈا اہلکار بجلی چوری کرواتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے یونین حرکت میں آجاتی ہے اور گناہ گار سزا سے بچ جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عابد شیر علی کراچی کے کنڈوں کا تذکرہ بھول گئے وہ فیصل آباد کو بھی نظرانداز کر گئے شاید مصلحتاً۔
عابد شیر علی کی بے باکیاں
Feb 11, 2014