کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے کی قرارداد

Feb 11, 2015

نذر الاسلام خورشید

کالا باغ ڈیم : پنجاب اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد
بڑے دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز کو توانائی کے وسائل اور صنعتی و زرعی ترقی کے فروغ کی توقعات سے محروم کرنے کیلئے جس آبی جارحیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اسکے مقابلے کیلئے خاطر خواہ اقدامات سے گریز کیا جا رہا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ حکمران طبقے کے سرکردہ افراد مسلسل اس کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود ہی کوئی ایسا سبب بنا دیں کہ عوام الناس اس ایشو کو فراموش کر دیں جس کا اہم ثبوت یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان سنگین مسائل کے حل کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے ذریعے نہ صرف ممکن بلکہ یقینی بنایا جا سکتا ہے، اس منصوبے کو یکسر پسِ پشت ڈالنے کیلئے کوشاں ہیں۔ موجودہ برسر اقتدار سیاسی پارٹی کے رہنماﺅں سے بھی چند سال قبل میں سے لوگ یہ توقعات باندھے بیٹھے تھے کہ وہ انتخابات جیت کر کالا باغ ڈیم پراجیکٹ کو سنجیدگی سے لیں گے کیونکہ اب تو معمولی سیاسی، سماجی اور معاشی شعور رکھنے والا پاکستانی بھی بخوبی سمجھتا ہے کہ اس میگا پراجیکٹ کی تکمیل سے ملکی پسماندگی دور کرنے کے سنہرے مواقع حاصل ہو جائینگے۔ سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ اس بات سے باخبر ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف تین سے چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی بلکہ دریاﺅں سے بہہ کر اور سمندر میں گر کر ضائع ہونے والے ساڑھے چار کروڑ ایکڑ فٹ پانی بچایا جا سکے گا جس کے استعمال سے صنعتی پہیہ زور شور سے چلے گا اور آبپاشی کے وسائل سے محروم کھیتیاں بھی سیراب ہو سکیں گی۔ اس مسئلے کے خاطر خواہ حل کے امکانات اگرچہ نظر نہیں آئے کیونکہ اکثر بیشتر سیاسی پارٹیاں مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہیں ۔مثال کے طور پر گزشتہ دنوں جماعت اسلامی نے پنجاب اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں زبردست مہم چلانے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور اسمبلی سیکرٹریٹ میں اس بارے میں ایک قرارداد بھی جمع کرا دی ہے۔ اس قرارداد میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر اور پارٹی کی صوبائی شاخ کے صدر ڈاکٹر سید وسیم اختر نے اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ بھارت سالہا سال سے پاکستان کے آبی وسائل پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے جو بیسیوں ڈیم تعمیر کر رہا ہے ان پر کام روکنے کیلئے بین الاقوامی برادری کی بھرپور توجہ دلائی جائے اور اگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو کم از کم اپنے طور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا کام تو شروع کرا دیا جائے اور اس معاملے پر قومی سطح پر اتفاق رائے کے حصول کی بھرپور کوششیں کی جائیں۔ قرارداد میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر اور پارٹی کی صوبائی شاخ کے صدر ڈاکٹر سید وسیم اختر نے اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ بھارت سالہا سال سے پاکستان کے آبی وسائل پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے جو بیسیوں ڈیم تعمیر کر رہا ہے ان پر کام روکنے کیلئے بین الاقوامی برادری کی بھرپور توجہ دلائی جائے اور اگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو کم از کم اپنے طور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا کام تو شروع کرا دیا جائے اور اس معاملے پر قومی سطح پر اتفاق رائے کے حصول کی بھرپور کوششیں کی جائیں۔ قرارداد میں وفاقی حکومت پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کی لعنت کا قلع قمع کرنے اور کرپشن اور عوام کو درپیش دیگر مصائب و مشکلات دور کرنے کے علاوہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور اس منصوبے کی افادیت کو اجاگر کرنے کیلئے بھی چاروں صوبوں میں اتفاق رائے کا ماحول قائم کیا جائے اور جو سیاسی جماعتیں اس بڑے منصوبے کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانے پر تُلی بیٹھی ہیں انہیں سیاسی تدبر کے ذریعے منصوبے کی افادیت سے قائل کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشتگردی کی روک تھام اور دہشتگردوں کی سرکوبی کیلئے فوج کی مدد اور تعاون سے جو ملک گیر مہم چلائی جا رہی ہے اس سے تمام سیاسی اور دینی جماعتیں پوری طرح متفق ہیں ماسوائے ان چند مفاد پرست عناصر کے جو ابھی تک دہشت گردی کیخلاف آپریشن ضرب عضب میں کیڑے نکالنے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان عناصر کا وجود آٹے میں نمک کے برابر ہے اور انشاءاللہ یہ عناصر بھرپور عوامی حمایت کے سیلاب کے سامنے خس و خاشاک کی طرف بہہ جائیں گے۔
پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں جو قرارداد جمع کرائی گئی ہے حزب اقتدار کو چاہئے کہ وہ اسے بحث کیلئے جلد از جلد ایوان میں پیش کرے اور اس پر اتفاق رائے کے حصول کو نصب العین بنایا جائے۔ وطن عزیز کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے سے جونہی اس پراجیکٹ پر اتفاق رائے حاصل ہوا تو بعد ازاں دیگر صوبائی اسمبلیوں میں بھی اسی موضوع پر قراردادیں زیر بحث لائی جائیں اور یقینی بات ہے کہ اگر 62 فیصد آبادی کے نمائندوں کی جانب سے اس پراجیکٹ کی زبردست حمایت کا مظاہرہ کیا گیا تو منصوبے کی مخالف پارٹیاں بھی اپنی ہچکچاہٹ دور کرنے پر غور کریں گی۔ وفاقی حکومت کا فرض اور ذمہ داری ہو گی کہ ایسی پارٹیوں اور تنظیموں کے نام نہاد اور فرضی خدشات دور کرنے کیلئے جدوجہد کرے۔
اس سلسلے میں دینی، مذہبی، جماعتوں اور تنظیموں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوششیں بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں