پٹرول اور دیگر اشیا پر اضافی ٹیکس، اپوزیشن کا قومی اسمبلی میں احتجاج، کارروائی کا بائیکاٹ ، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کا مطالبہ

اسلام آباد (خبرنگار + ایجنسیاں) قومی اسمبلی سے متحدہ اپوزیشن نے پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی میں 10 فیصد اور دیگرمتعدد اشیاء پر پانچ فیصد اضافی ڈیوٹی عائد کرنے کے حکومتی اقدام کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا‘ پی پی پی‘ ایم کیو ایم‘ جماعت اسلامی‘ قومی وطن پارٹی سمیت تمام اپوزیشن ارکان ایوان سے باہر چلے گئے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا حکمرانوں نے ملک کو آئی ایم ایف سمیت مالیاتی اداروں کا غلام بنادیا ہے‘ کل تک پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کردار ادا کیا‘ بتایا جائے آج قوم کو کیا جواب دیں‘ منی بجٹ نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی‘ کسان مزدور سمیت ہر طبقہ پریشان ہے‘ حکمران کشکول توڑنے کیلئے میدان میں آئیں ہم ساتھ دیں گے‘ صحیح معنوں میں شیر ہمیں امریکہ کی غلامی سے نکالے‘ شیر کے روپ میں گیدڑ نہ بنیں‘ عوام مضبوط ہوں گے تو ملک مضبوط ہوگا‘ جی ایس ٹی پر سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہئے، ایم کیو ایم کے پارلیمانی سربراہ عبدالرشید گوڈیل نے کہا قوم کو کسی جمہوریت یا مارشل لاء سے نہیں صحت‘ تعلیم اور روٹی سے واسطہ ہے‘ حکمران شیر کی بجائے اشرف المخلوقات بن جائیں تو مسائل حل ہوسکتے ہیں حکومت اضافی ٹیکس کی پارلیمنٹ میں منظوری کے لئے پیش کرے یا واپس لے‘ جب تک اضافی جی ایس ٹی اور ڈیوٹی واپس نہیں لی جاتی تب تک ہم ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ جاری رکھیں گے‘ وزیر مملکت آفتاب شیخ نے کہا اپوزیشن حکومت کی کارکردگی سے خائف ہوگئی ہے سابق حکومت نے پی آئی اے‘ سٹیل مل اور ریلوے کو تباہ کیا‘ ملک کو اندھیروں میں ڈبویا ہم تباہ حال اداروں کو بحال کررہے ہیں‘ اپوزیشن انتظار کرے جلد ملک کو معاشی قوت بنا کر دکھائیں گے‘ خورشید شاہ نے جی ایس ٹی میں اضافے پر نکتہ اعتراض پر کہا پوری دنیا میں پارلیمنٹ میں سال کا بجٹ دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے سالانہ بجٹ کا رواج ختم ہورہا ہے اور آئی ایم ایف سمیت مالیاتی اداروں کے غلام بن جاتے ہیں اور ان کے ایما پر آئے روز منی بجٹ لے آتے ہیں جس سے ملک کو نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا آئے روز نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں یہی ٹیکس بجٹ میں لگائے جائیں یا پھر ای سی سی کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں لایا جائے تو اعتراض نہیں ہوگا مگر علم نہیں کیوں اس طرح کیا جارہا ہے۔ ہم جی ایس ٹی پر شور مچا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب پارلیمنٹ سے بالا بالا ہی ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ یہ تو بتایا جائے پھر ہم اس ایوان میں کیوں بیٹھے ہیں۔ حکومت اپنی نااہلی آکر بتائے کہ کیوں اہداف حاصل نہیں کررہے۔ حکومت اپنی ہی پارلیمنٹ کو پورس کے ہاتھیوں کی طرح کچلنے کے درپے ہے۔ کل آپ لوگوں نے بھی عوام میں جانا ہے کیا حکومت غریبوں کی دشمن ہے کہ ان کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھینا جارہا ہے۔ کسانوں اور سرکاری ملازمین کو مراعات دیں لیکن افسوس کپاس کی قیمتوں کا تعین نہیں کیا جارہا جبکہ صنعتی شعبے کا مزدور نج کاری کی وجہ سے پریشان حال ہے۔ غریبوں کا پیٹ میٹرو بسوں اور بلٹ ٹرینوں سے نہیں بھرے گا۔ ہر معاملے کو ایوان میں آنا چاہئے کیونکہ صرف آئین و پارلیمنٹ ہی جمہوریت کو مضبوط کرتی ہے۔ کل تک پیپلزپارٹی‘ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں حکومت کیساتھ کھڑی ہوگئیں کہ اس پارلیمنٹ کو مضبوط بنائیں گے لیکن افسوس آج اس کی بالادستی کہاں گئی جب ایوان سے بالا بالا ہی فیصلے کئے جاتے ہیں۔ بتایا جائے آج ایوان کے باہر لوگوں کو کیا جواب دیں گے۔ حکمران عوام کا خیال کریں جنہوں نے دس سال کی جلاوطنی کے بعد پھر انہیں آنکھوں پر بٹھایا ہے۔ انوشہ رحمن مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی ہیں انہوں نے تحریک پیش کی بجٹ پیش کرنے سے قبل قائمہ کمیٹیوں میں زیر بحث آنا چاہئے مگر افسوس گذشتہ دو سال میں ایسا نہیں ہوا۔ پی پی پی نے پانچ سال میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 125 فیصد بڑھائیں حکمران 10فیصد اضافے کے لئے بھی تیار نہ تھے۔ حکومت اضافی جی ایس ٹی واپس لے اور پارلیمنٹ کو بااختیار بنائے روز روز ٹیکس لگانے ہیں تو پھر سال میں چار دفعہ بجٹ پیش کرنے کا قانون بنا دیا جائے ہم حکومت کے ساتھ ہیں غیر ملکی امداد کا کشکول توڑ دیں قوم بھوکی ننگی زندہ رہ جائے گی لیکن امریکی غلامی برداشت نہیں کریں گے۔ پارلیمنٹ کو مضبوط بنایا جائے پارلیمنٹ مضبوط ہوگی تو پاکستان اور عوام مضبوط ہونگے۔ آفتاب شیخ نے کہا پی پی پی نے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا ہوتا تو آج لوڈشیڈنگ نہ ہوتی ہم دو سال میں لوڈشیڈنگ ختم کرکے پاکستان کو روشنیوں کا ملک بنا کر جائیں گے ہم کشکول توڑنا چاہتے ہیں لیکن پی پی پی نے اتنا مضبوط اور کشکول تیار کیا جسے توڑتے توڑتے وقت لگے گا۔ اپوزیشن بتائے سٹیل ملز، ریلوے، پی آئی اے کو تباہی کے دہانے پر کس نے پہنچایا۔ اے پی پی کے مطابق عربی زبان کی لازمی تعلیم، انصاف کی فوری فراہمی، عدالتوں میں مقدمات زیر التوا رہنے کے سدباب اور پرائیویٹ کوریئر سروسز کے کاروباری کو ریگولیٹ کرنے کے تین بل قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے جبکہ مجموعہ ضابطہ دیوانی (ترمیمی) بل 2015ء متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ قومی اسمبلی میں حکومتی رکن نے کورم کی نشاندہی کر دی جس پر اجلاس (آج) بروز بدھ صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے نئے ٹیکسوں کیخلاف قومی اسمبلی سے روزانہ کی بنیاد پر واک آئوٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کے ساتھ بلیٹے ارکان ڈسپلن کی وجہ سے ہمارے ساتھ واک آؤٹ پر نہیں آئے۔ ان کا دل بھی ک رتا ہے لیکن وہ مجبور ہیں۔ ہم عوامی مسائل حل کرانے کیلئے پارلیمنٹ میں آئے ہیں، اپوزیشن کے طور پر اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کریں گے، ہم نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو کس منہ سے عوام کے پاس جائینگے، اب وہ دور ختم ہو گیا کہ اپوزیشن کسی سے مل کر سازش کر کے حکومت کو ختم کرے، ہم ’’گو، گو‘‘ کی سیاست نہیں کرتے۔ حکومت ہمیں عدالتوں اور سڑکوں پر جانے سے روکے پارلیمنٹ میں مسئلہ حل کرائیں اور پارلیمنٹ کے قد کو بڑھائیں، ہماری نہ سنی گئی تو پھر ہم عدالتوں اور سڑکوں کا رخ کریں گے۔ ہم نے حکومت کو بجٹ کے موقع پر بھی کہا تھا کہ ہدف زیادہ نہ رکھیں، اس کو پورا کرنے کے لئے پھر نئے ٹیکس لگانے پڑیں گے، بجٹ کا اثر وفاق اور صوبوں پر پڑے گا۔ انہوں نے یہ بات پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی اس موقع پر اپوزیشن جماعتوں کے دیگر ارکان بھی موجود تھے۔ خورشید شاہ نے کہا حکومت پارلیمنٹ کی موجودگی میں ضمنی بجٹ لا کر جمہوریت کو نقصان پہنچا رہی ہے، بہتر ہو گا ہمارے سڑکوں پر نکلنے اور عدالتوں سے رجوع سے پہلے حکومت ہمیں روکے، فوری نئے دس فیصد ٹیکس کو واپس لیا جائے۔ وزیراعظم پارلیمنٹ کو مضبوط بنائیں اس کی حیثیت ختم نہ کریں، تمام فیصلے پارلیمنٹ کے اندر ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا ہم نے پارلیمنٹ کے تقدس کو بچانے کیلئے حکومت کا ساتھ دیا تھا کچھ لوگ ملک میں سیاست نہیں دیکھنا چاہتے تھے، بیک ڈور کے ذریعے اقتدار میں آکر مجلس شوریٰ کے نام پر بیٹھنا چاہتے تھے، ہم نے ان کا راستہ روکنے کیلئے انکا ساتھ دیا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...