مسعود محمود قسم کے لوگ

Feb 11, 2016

محمود فریدی

تیسری دنیا کے ممالک کی بدقسمتی کا آغاز کیسے ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب پیچیدہ بھی ہے اور سادہ بھی! جب کسی ملک کی اشرافیہ، بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے چنیدہ لوگ اپنے ذاتی لالچ کے تحت قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر بیگانوں کے آلہ کار بنتے ہیں تو اس ملک و قوم کے برے دن شروع ہوجاتے ہیں۔ تیسری دنیا میں جونہی کوئی شخص حکمران بن کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتا ہے، اسکے دوست احباب رشتہ دار مبارک سلامت کہہ رہے ہوتے ہیںاور وہ اپنی خوش بختی پر ناز کررہا ہوتا ہے۔ ایک ہیولا نمودار ہوتا ہے اور اسکے کان میں سرگوشی کرتا ہے۔ مسٹر حکمران! اقتدار مبارک ہو! مگر زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں۔ یہ اقتدار ہماری بخشش ہے، یہ حکمرانی ہماری خوشنودی اور آشیرباد سے مشروط ہے۔ آپکو ہمیشہ ہمارے تابع اور ہمارے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا جواب میں ہم تمہارا خیال رکھیں گے۔ ہماری حکم عدولی کی صورت میں تم کرسی اقتدار پر نہیں رہو گے، ٹکرائو گے تو مسعود محمود بنا دیئے جائو گے۔ مسعود محمود ہاں مسعود محمد مگر یہ تو پاکستانی کردار تھا اس کا تیسری دنیا کے دیگر ممالک سے کیا تعلق؟ نہیں یہ انٹرنیشنل کردار ہے۔ سب ملکوں میں مسعود محمود موجود ہیں ایک نہیں کئی کئی! اس کانا پھوسی کے بعد حکمران کے ماتھے پر پسینہ اور آنکھوں میں دھند آجاتی ہے، اقتدار کا نشہ ہرن ہو جاتا ہے۔ دوست احباب دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں مگر بیورو کریسی کے کارندے مسکراتے ہیں کیونکہ انہیں اس ڈرامے کی حقیقت کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ جن حکمرانوں کو اس حقیقت کا علم ہوتا ہے، وہ پوشیدہ چہرے اور غیبی آواز کا استقبال باچھیں کھول اور کھلکھلا کر کرتے ہیں اور یقین دلاتے ہوئے کہتے ہیں اے مرے ان دیکھے آقا بندہ مکمل غلامی کریگا۔ ایسا کرنے کے فوراً بعد ان کو شاباش اور آشیرباد مل جاتی ہے اور وہ اپنے حکمرانی کے لچھنوں کا فوری آغاز کردیتا ہے۔ پہلی بار کا بزعم خود حکمران دل میں کہتا ہے کہ الیکشن ہوا میری جماعت نے اکثریتی ووٹ لیا میرے حمائیتوں نے بڑی محنت کی عوام کی کثیر تعداد نے میرے حق میں نعرے لگائے جلسوں اور جلوسوں میں شاندار استقبال ہوا۔ اب یہ کیا کرسی پر بیٹھا ہوں تو یہ خودبخود گھومنے لگی ہے۔ میں نے سمجھا تھا کہ یہ تخت شاہی ہے مگر یہ تو پنگوڑا نکلا، اب کیا کروں۔ حکمران اپنے سیکرٹری کو بلاتا ہے اور کور کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں ساری مشکل کھول کر بیان کرتا ہے۔ ساتھی مشورہ دیتے ہیں حضور اپنی سلامتی کے ضامنوں کو اعتماد میں لیجئے اور سینے پر ہاتھ مار کر ڈٹ جائیے۔ سلامتی کے اداروں کے ساتھ یکجہتی سے کوئی بیرونی طاقت ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتی۔
ایک دانشور مشیر کہتا ہے جناب! یہ چہرہ جوکہتا ہے کر دکھاتا ہے، اس سے بے وفائی یا ٹکر لینے کی ضرورت نہیں۔ آپ قائداعظم نہیں ہیں نہ یہ وقت 1947ء کا ہے، عالمی منظر نامہ بدل چکا ہے۔ ابھی تو آپ نے زندگی کی پوری بہاریں بھی نہیں دیکھیں۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا شہید کہلائیں گے نا! پھر کیا ہوگا؟ پہلے کتنے شہید طاق نسیاں کی زینت ہیں۔ بھٹو، ضیائ، فیصل، صدام، قذافی اور… وغیرہ! میری مانیں جیسے وہ کہتے ہیں کرتے جائیں… شرم کرو! مجھے موت سے ڈراتے ہو! تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو میں ہٹ کا کتنا پکا ہوں نہ کبھی جھکا ہوں نہ بکا ہوں ماسوائے اللہ کے! جناب گستاخی معاف، عالی جاہ کا اقبال بلند ہویہ خفیہ چہرہ کچھ نہیں دیکھتا سنتا، جہاں سے اختلاف روگردانی اور عدم تعاون کی بُو آجائے آدم بو آدم بو پکار کر چڑھ دوڑتا ہے۔ اس سے تعاون اور افہام و تفہیم ہی بہترین پالیسی ہے۔ یہ پوشیدہ چہرہ سمندرو ںمیں گھرا قلعہ بند دیو ہے اپنی پسندیدہ شہزادی یا مخالف کو مکھی بناکر لے جاتا ہے اور من مانی کرتا ہے، اسکے جاسوس اور کارندے ہر ملک اور خطے میں موجود ہیں اور وہاں کی دوشیزائوں کے حسن بے مثال کی تصویریں دھڑا دھڑ اسکے پاس بھیج رہے ہیں۔ یہ انٹرنیٹ اور سیٹ لائٹ کیمرے اس کا جاسوسی سسٹم ہے جسکے ذریعہ کرئہ ارض کے باشندوں کی ہر ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ خصوصاً حکمرانوں کو تو باتصویر بے لبادہ دیکھا جاتا ہے … چھوڑو! مجھے مت ڈرائو! دیکھو ہم خدا کو ماننے والے ہیں، وہی ہمارا مددگار اور حافظ ہے! ہم اپنے محکمہ جاسوسی کے ذریعہ ہر شکل کا توڑ نکالیں گے … ایک ساتھی نے مشورہ دیا! سر! جان کی سلامتی پائوں تو عرض کروں! یہ موقع خدا نے آپ کو دیا ہے، اپنی اور ہماری پشتیں سنوارنے کا، خدا کیلئے خود اپنے آپ پر اور ہماری آل اولاد پر رحم کھائیں۔ تصادم اور روگردانی کی راہ سے بچ جائیں بلکہ میری گزارش ہے مکمل اطاعت کی راہ اختیار کریں۔ دولت اکٹھی کریں اور مسعود محمود سے بھی دو ہاتھ آگے حقانی بن جائیں۔ غیبی طاقت کے منظور نظر بن کے ہمیشہ کیلئے آسودہ و محفوظ ہوجائیں… لاحول ولاقوۃ! لعنت سو ہزار بار لعنت اس خیال اور تجویز پر! میں پاک مٹی سے فریب کروں، میں اپنی ماں کے دودھ کو جھٹلا دوں! میں اپنے باپ دادا کی ہڈیوں سے غداری کروں! ایک زیرک، ہوشمند مشیر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا جناب غصہ اور جذبات بجا مگر ایسے کام نہیں چلے گا۔ آپ میری مانیں کچھ بھی نہ کریں! پوشیدہ چہرے، غیبی آواز، خفیہ ہاتھ اور ان دیکھی طاقت کی ہاں میں ہاں ملاتے جائیں، سنتے جائیں لیکن کریں وہ جو ہمارے لئے بہتر ہو، ملک و قوم کیلئے بہتر ہو! وہ چہرہ چھپاتا ہے، آپ دل چھپالیں! وہ ہاتھ چھپاتا ہے، آپ نیت چھپا لیں! وہ اپنا مقصد چھپاتا ہے آپ بھی اپنا مقصد چھپالیں۔ بس گھر کے اندر یکجہتی اور اتفاق اتنا ہو کہ اسے بھنک ہی نہ پڑے کہ اندر کیا ہورہا ہے! بس اللہ اللہ خیر صلیٰ… شاباش! شاباش! یہ ہوئی نہ بات! حکمران کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا!

مزیدخبریں