لاہور (خصوصی رپورٹر+خصوصی نامہ نگار+کامرس رپورٹر) پنجاب اسمبلی گذشتہ روز بھی مچھلی منڈی بنی رہی اور اپوزیشن احتجاج کرتے ہوئے واک آئوٹ کرگئی، سوالوں کے جواب دیتے ہوئے محکمہ صحت کے پارلیمانی سیکرٹری خواجہ عمران نذیر لمبی تقاریر کا سہارا لیتے رہے اور صوبے میں محکمہ صحت کے متعلق پوچھے گئے جواب پر خیبر پی کے کا حوالہ دیتے رہے۔ سپیکر نے کئی بار منع بھی کیا اپوزیشن نے طبی سہولتوں کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ دور دراز کے عوام کو طبی آلات اور ادویات کیلئے اگر میٹرو بس یا میٹرو ٹرین کے فنڈ میں سے کچھ فنڈ فراہم کر دئیے جائیں تو یہ عوام کی فلاح ہوگی تو پارلیمانی سیکرٹری جذباتی ہوگئے اور محکمہ صحت ایک طرف رکھتے ہوئے میٹرو منصوبوں پر تقریر شروع کردی، ایوان میں تسلی بخش جواب نہ ملنے پر حکومتی رکن میاں طاہر نے بھی احتجاجاً واک آئوٹ کیا۔ زراعت پر بحث کرتے ہوئے حکومتی و اپوزیشن ارکان کاشتکاروں کے مفاد میں متحد ہوگئے اور انہوں نے زرعی ٹیکس سے متعلق تمام پالیسیاںکاشتکار دشمن قرار دیتے ہوئے ان پر نظرثانی کرنے، دوہرے ٹیکس ختم کرنے اور زراعت و کسان کو بچانے کیلئے پارلیمانی کمشن بنانے، بھارت سے تجارت پر نظرثانی کرنے اور کالا باغ ڈیم بنانے کا مطالبہ کیا ہے سپیکر نے ارکان کے مطالبے پر خصوصی کمشن بنانے سے پہلے حکومت کا موقف جاننے کی بات کی تو ارکان نے‘ کاشتکار پر رحم، کاشتکار پر رحم‘ کے واسطے دینا شروع کر دئیے۔ بحث کے دوران مطالبہ کیا گیا ہے کہ گنے کی خرید پر ملز مالکان کی طرف سے جاری کی جانے والی رسید سی پی آر کو چیک یا پے آرڈر کا درجہ دیا جائے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی رکن طارق باجوہ نے کہا کہ شوگر ملز مافیا اتنا پاور فل ہے کہ کسی کے کہنے سننے میں نہیں، اسلئے سی پی آر کو پے آرڈر کا درجہ دیا جائے، انہوں نے کہا کہ بھارت سے ٹیکس فری سبزیوں اور پھلوں کی تجارت نے پاکستانی کاشتکار کی کمر توڑ دی ہے۔ ایوان کے ارکان متحد ہوکر ایسا حل تلاش کریں کہ صوبے کی ستر فیصد کاشتکار آبادی کو کس طرح تباہ ہونے سے بچایا جائے جبکہ کسان کو زرعی ٹیکس سمیت کئی قسم کے ٹیکسوں سے لوٹا جارہا ہے۔ آصف باجوہ نے کہا کہ حکومت کی سبسڈائز پالیسیوں سے کاشتکار کو صحیح فائدہ نہیں مل رہا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارت سے غیر قانونی طور پر ناقص زرعی آلات درآمد کیے جارہے ہیں۔ فتیانہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کسان کو چاول اور آلو کی فصل سے ہونے والے نقصان کا ذکر کیا اور کہا چاول کی ایکسپورٹ پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ شوگر ملوں کے مالکان کی طرف سے کاشتکاروں کو ادائیگی نہ کیے جانے پر اب لوگوں نے گنا بیچنے کی بجائے کماد کو چارے کے طور پر بیچنا شروع کر دیا ہے۔ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ حکومتی رکن ارشد ملک نے بھی دوسرے ارکان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ کاشتکار کو اپنی اجناس سٹور کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق کھلی مارکیٹ میں مڈل مین کے واسطے کے بغیر فروخت کرنے کی اجازت اور جملہ سہولیات دی جائیں۔ ڈاکٹر وسیم اختر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے سپیکر کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ اس ایوان کے دونوں اطراف (حکومتی اور اپوزیشن بنچوں) کی بے چینی دیکھیں اور ارکان کے مطالبے کے مطابق کمشن بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم بنانے سے بھی ہم بیرون ملک سے سبزیاں اور پھل درآمد کرنے سے نہ صرف بچ جائیں گے بلکہ ایکسپورٹ بھی کر سکیں گے۔ شیخ علائوالدین نے کہا کہ ہم اپنی زرعی انڈسٹری کو خود تباہ کررہے ہیں۔ اب تو کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں بھی شوگر ملیں لگنا شروع ہوگئی ہیں۔ حکومتی رکن مسعود عالم نے بھی حکومت کی توجہ کاشتکار کے مسائل اور ڈاکٹر وسیم اختر کی طرح چولستان کا خصوصی ذکر کیا۔ اپوزیشن رکن صدیق خان نے حکومت کی طرف سے کسان پر عائد کئی ایک ٹیکسوں اور خاص طور پر شرعی ٹیکس و زرعی انکم ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور وفاقی ٹیکس کو غیر قانونی قرار دیا۔ اپوزیشن رکان ڈاکٹر نوشین حامد، اور نبیلہ حاکم علی نے بھی اپنے ساتھی ارکان کے موقف کی تائیدو حمایت کی، اسی طرح حکومتی ارکان امجد علی جاوید اور ثریا نسیم نے بھی کاشتکاروں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ بحث کے اختتام تک ایوان میں صرف 8 ارکان رہ گئے تھے جس پر وزیر زراعت کی بحث سمیٹنے کی تقریر اور ارکان کے نکات کا جواب مؤخر کردیا گیا اور اجلاس آج صبح دس بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ آئی این پی کے مطابق اپوزیشن نے بجلی کے بحران کے حل اور پانی کی کمی کو پورا کر نے کیلئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور بہاولپور کو دوبارہ صوبے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے بجلی کا شارٹ فال فی الفور ختم ہوجائے گا‘ کسانوں کو ٹیوب ویل چلانے کیلئے 40 روپے فی لیٹر ڈیزل اور بجلی 2روپے فی یونٹ فراہم کرنے ‘ آئندہ آنے والی گندم کی فصل کا ایک ایک دانہ کسان سے اٹھایا جائے اور گنے کی قیمت کی کسان کو 100فیصد ادائیگی کرشنگ سیزن ختم ہونے سے پہلے کی جائے۔