دنیا میں بڑے بڑے سیاست دانوں نے اپنی سیاسی زندگی کا ’’عروج و زوال‘‘ زندانوں میں ہی قلمبند کیا ہے بیشتر سیاست دانوں نے قیدو بند کی صعوبتوں کو جرات و استقامت سے برداشت کر کے تاریخ لکھی ہے جیل کی کال کوٹھری میں ’’قرطاس و قلم ہی ان کا ساتھی ہوتا ہے دور جدید میں ’’لیپ ٹاپ‘‘ نے قرطاس و قلم کی جگہ لے لی ہے متعدد سیاست دانوں نے جیل کی کال کوٹھری سے معرکتہ الٓاراء کتب لکھی ہیں ذولفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں معرکتہ الاراء کتاب ’’اگر میں قتل کر دیا گیا‘‘(if i am assinasted)تحریر کی ۔ استاد محترم آغا شورش کاشمیریؒ کی زندگی کا بیشتر حصہ قیدو بند میں گذرا ہے انہوں نے قید کے دوران ہی متعدد کتب لکھیں ۔ دور حاضر میں جاوید ہاشمی نے جیل یاترا کے دوران تین کتب لکھی ہیں ’’میں باغی ہوں‘‘ لکھی تو یہ کتاب hot cakesکی طرح فروخت ہو ئی ان کی دوسری کتب ’’تختہ دار کے سائے تلے ‘‘ بھی چونکا دینے والی جیل کی کہانی تھی لیکن انہوں نے تیسری کتاب ’’زندہ تاریخ‘‘ کا انتساب ’’پاکستان کی آنے والی نسلوں کے نام کیا ہے565صفحات پر مشتمل کتاب در اصل ان کی جیل یاترا کے دوران پیش آنے والے واقعات پر مشتمل روز مرہ کی ڈائری ہے انہوں نے کتاب میں ان ملاقاتیوں کا ذکر کیا جو ان کی جیل یاترا کے دوران ان سے ملاقات کے لئے آتے رہے ہیں ’’زندہ تاریخ ‘‘ جاوید ہاشمی کی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی داستان ہے ان کی داستاں تاریخ کے ان کرداروں کے گرد گھومتی ہے جو آج بھی ملکی سیاست میں ’’سرگرم ‘‘ہیں جاوید ہاشمی نے جیل میں پیش آنے واقعات پر قلم اٹھایا تو ان میں اپنے احساسات و جذبات کو بھی سمو دیا سیاست دان کے لئے صاحب کتاب بننے کیلئے جیل یاترا ضروری ہوتی ہے کیونکہ یہی وہ جگہ ہو تی ہے جہاں اسے تنہائی میسر ہوتی ہے اور پھر یہ تنہائی سوچ و فکر اور پیش آنے والے واقعات کو قرطاس پر منتقل کرنے کا سبب بنتی ہے ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جیل یاترا میں گذرا ہے انہوں نے6سال تک جنرل پرویز مشرف کی جیل کاٹی ’’زندہ تاریخ ‘‘جولائی2006سے2007کے واقعات پر مشتمل داستان حیات‘‘ ہے جاوید ہاشمی بعداز مرگ اپنی کتاب کی اشاعت چاہتے تھے لیکن 10سال کے انتظار کے بعد انہوں نے کتاب کی اشاعت کی اجازت دے دی وہ زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتے تھے جیل میں ان کا سیل الگ تھلگ تھا جیل حکام کی اجازت کے بغیر کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا ’’زندہ تاریخ ‘‘ ایک ایسے عہد کی ’’داستان ‘‘ جس میں سیاست دانوں کے لئے سانس لینا بھی مشکل تھا جنرل پرویز مشرف کے ’’جنگل کے قانون‘‘ کے شکنجے میں ہر اس شخص کو لیا جارہا تھا جو جنرل پرویز مشرف ‘‘ کی ’’فوجی بادشاہت‘‘ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا جاوید ہاشمی نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی غیر قانونی حکومت کے سامنے ’’سرنڈر ‘‘ نہیں کیا تو اسے بغاوت کے ایک جھوٹے مقدنے میں جیل کی کال کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا جاوید ہاشمی بھی جنرل پرویز مشر ف کے ’’مارشلائی نظام حکومت‘‘ کا ’’باغی‘‘ تھا جاوید ہاشمی جیل میں ڈال دئیے گئے تو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ان کا مقدمہ باری آنے پر سننے کا حکم صادر کیا اسے تاریخ کا جبر کہیں یا کچھ اور پھر اسی چیف جسٹس نے ریٹائرمنٹ کے بعد بے نظیر ائیرپورٹ پر فرط جذبات میں جاوید ہاشمی کو ’’مرشد‘‘ کہہ کر ان کے ہاتھ چوم لئے ۔جاوید ہاشمی نے اپنی کتاب میں اس بات کا خاص طور ذکر کیا ہے کہ ’’ نواز شریف کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی تھی میں ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتاہوں ‘‘ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے وزارت اعلی ٰ یا وزارت عظمیٰ کا کبھی خواب نہیں دیکھا شاید مخدوم جاوید ہاشمی کا یہی ’’جرم ‘‘ ٹھہرا جو ان کو شریف برادران سے دور لے گیا بالآخر وہ ایک ایسی پارٹی میں چلے گئے جو ان کے مزاج کے مطابق نہیں تھی اس’’ سیاسی خود کشی‘‘ نے ان کی پوری زندگی کی کمائی ضائع کر دی پھر اسی جاوید ہاشمی نے 2014ء میں عمران خان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی سازش کا ’’بھانڈہ ‘‘ پھوڑ کر نواز شریف کے تمام احسانات کا قرض اتار دیا انہوں نے نواز شریف سے پارٹی منظم کرنے کے لئے ایڈیشنل سیکریٹری بننے کی خواہش کا ضرور اظہار کیا لیکن انہیں سینئر ناب صدر بنا دیا گیا جاوید ہاشمی اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے کیا پھر بھٹکتے ہوئے تحریک استقلال پہنچے لیکن ان کی اصل منزل مسلم لیگ(ن) تھی نواز شریف کی قیاد ت میںان کی سیاسی زندگی کا عروج تھا وہ جنرل ضیاالحق کی کابینہ میں شمولیت پر آج بھی شرمندہ ہیں نواز شریف کی جلاوطنی کے ایام میں پارٹی کا ڈھانچہ برقرار رکھا پارٹی میں’’ یار دوستوں‘‘ نے ان کا غیر دانستہ طور پر جس شخصیت سے مقابلہ بنا دیا وہ شخصیت کوئی عہدہ نہ ہونے کے باوجود پارٹی میں کرتا دھرتا تھی شاید یہی بات جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان’’ سرد جنگ‘‘ کا باعث بنی انہوں نے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں کہا ہے ’’چوہدری نثار علی خان ایک زیرک ذہین اور موقع شناس سیاسی کردار ہیں اپنے یا پرائے انہیں اپنی راہ میں حائل ہوتے نظر آئیں تو انہیں راستے سے ہٹانے کے گر آزمانے کا فن جانتے ہیں وہ پارلیمانی پارٹی کے لیڈر بننا چاہتے تھے۔ میری بدقسمتی کہ مجھے وہ اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ نواز شریف کی واپسی پر میں جھاگ کی طرح بیٹھ جاؤں گا ۔ جب نوازشریف پاکستان واپس آئے تو میں نے کبھی وزیر بننے کا سوچا ہے اور نہ ہی وزیراعظم ‘ صدر پاکستان ۔ میں کسی کی راہ میں روڑے کیسے اٹکا سکتا ہوں ۔ نوازشریف اور شہبازشریف کی سیاست میں میری کوئی حیثیت نہیں ۔ شریف برادران کو فوجی اور غیر فوجی حلقوں میں متعارف کرانے کا سہراچوہدری نثار علی خان کے سر ہے حقیقت بھی یہی ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے تمام صلاحیتیں میاں صاحبان کیلئے وقف کر دی تھیں مسلم لیگ پر لندن گروپ کا مکمل کنٹرول تھا۔ (انہوں نے لندن گروپ کی وضاحت نہیں کی) میں زبان بھی نہیں کھول سکتا تھا میں نے نوازشریف سے بارہا کہا کہ چوہدری نثار علی خان جیل میں ملنے نہیں آتے اس سے پارٹی کے اندر اختلافات کی خبریں اڑتی رہتی ہیں ۔ آپ چوہدری صاحب کو کہیں کہ وہ مجھے مل جائیں میں چوہدری نثار علی خان کا جیل میں کئی دن منتظر رہا۔ انہوں نے مجھے ملاقات کے موقع پر کہا ’’ میں تو ملنے کے لئے نہیں آرہا تھا بلکہ میاں صاحب نے مجبور کیا تو میں آگیا ہوں میں نے ان سے کہا کہ کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ نہ ملنے کی وجہ کیا تھی؟میں نے چوہدری نثار علی خان سے جاوید ہاشمی کی نئی کتاب کا ذکر کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ ’’زندہ تایخ ‘‘ ان کی نظر سے گذرچکی ہے لیکن انہوں نے کہا کہ جب وہ جاوید ہاشمی سے ملنے گئے تو میں نے ان سے نہ ملنے کی وجہ بتا دی تھی جو انہوں نے بوجو ہ تحریر نہیں کی انہوں نے ادھورا ’’سچ‘‘ لکھا ہے میں نے جاوید ہاشمی کو چوہدری نثار علی خان کے’’ بے لاگ تبصرے‘‘ سے اس وقت آگاہ کر دیا تھا جب وہ ’’زندہ تاریخ‘‘ کا دوسرا نسخہ دینے نوائے وقت آئے کیونکہ ان کا دیا ہوا پہلا نسخہ ان کے کسی چاہنے والے نے اڑالیا تھا بہر حال جاوید ہاشمی بھی اپنے موقف پر قائم رہے ۔قومی اسمبلی میں میری رہائی کا مسئلہ قاضی حسین احمد نے اٹھایا ۔ مخدوم امین فہیم ‘ مولانا فضل الرحمن‘ اسفندیارولی اور دوسری تمام جماعتوں نے ان کی تائید کی لیکن میری جماعت خاموش رہی محترمہ بے نظیر بھٹو 1990 ء میں جنرل اسلم بیگ کے پاس جی ایچ کیو آئیں تو انہوں نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کی تجویز دی تھی لیکن جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس گفتگو کا جی ایچ کیو میں ریکارڈ موجود ہے اور جنرل مرزا اسلم بیگ کے پاس بھی موجود ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس بات کی تردید نہیں کی البتہ جنرل مرزا اسلم بیگ پر الزام عائد کیا کہ وہ 12 ارب ڈالر میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایران کو فروخت کرنے کے لئے تیار تھے۔ جنرل اسلم بیگ نے اسے امریکہ کو خوش کرنے کیلئے ایران کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا۔ انہوں نے اپنی کتاب میں علامہ مشرقی کی کتاب ’’تذکرہ‘‘ کا ذکر کیا ہے جو نامور صحافی شبیر شاہ نے تحریر کی۔ جاوید ہاشمی نے جیل میں علامتی بھوک ہڑتال کی۔ انہوں نے 3 بڑے واقعات کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے۔ ایک انضمام کی ہیرو کی طرح ریٹائرمنٹ دوسرا واقعہ جسٹس بھگوان داس کا چیف جسٹس کے طور پر کردار اور تیسرا واقعہ لندن میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی لندن میں ملاقات ہے جس کے بعد’’میثاق جمہوریت‘‘ ہوا جس میں پاکستان میں مل کر بحالی جمہوریت کرنے کا عہد کیا گیا۔جاوید ہاشمی نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر طارق فضل جیل میں ان کے پاس میاں نواز شریف کا پیغام لے کر آئے کہ میمونہ کو لندن کانفرنس میں ضرور شرکت کرنی چاہئے۔ جاوید ہاشمی کا پسندیدہ کھانا ’’میتھی کا ساگ‘‘ ہے میں خود بھی ان کے لئے اڈیالہ جیل میں ’’سرسوں کا ساگ اور مکئی‘‘کی روٹی لے کر جاتا رہا ہوں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جو اڈیالہ جیل میں تنہائی محسوس کرتے تھے پیپلز پارٹی کے بہت کم لیڈر ان سے ملنے آتے تھے لیکن جب جاوید ہاشمی کی ملاقاتیوں کی محفل سجتی تو جاوید ہاشمی ان کو بھی بلوا لیتے اور پھر خوب گپ شپ لگتی جاوید ہاشمی نے کہا کہ جس روز سانحہ لال مسجد ہوا ان کی آنکھیں لال ہوگئیں۔ وہ ساری رات ایک پل نہ سوسکے محترمہ بے نظیر بھٹو نے انکشاف کیا ان کے اور میرے میاں نواز شریف کے درمیان زبانی طے پاگیا ہے کہ وہ پہلے 5 سال وزیراعظم بنیں گی اور اس کے بعد میاں نوازشریف 5 سال کے لیے وزیراعظم بنیں گے ۔ پرویز مشرف کو صدر برقرار رہنے کی پیشکش کا مثبت جواب نہ آنے پر ڈیل ادھوری رہ گئی لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس بیان کی مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل اقبال ظفر جھگڑا نے تردید کر دی جاوید ہاشمی نے اپنی کتاب میں روزنامہ نوائے وقت ،دی نیشن کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کی ملاقات کا ذکر کیا ہے انہوں نے رہائی کے لئے اپنی خدمات پیش کیں جس پر انہوں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور درخواست کی کہ میری رہائی سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنی کوششیں پاکستان میں پرامن انتقال اقتدار کے لیے صرف کریں۔