امریکی قانون سازوں اور جرنیلوں نے عندیہ دیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے اور دہشتگردی کے خاتمے کےلئے مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کی ایک سماعت کے دوران امریکی قانون سازوں اور امریکی جرنیلوں نے اشارہ دیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے اور ان تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے واشنگٹن، اسلام آباد کو افغانستان سے متعلق اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کی جانب راغب کرے گا۔ سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان مکین نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپنے ابتدائی بیان میں کہا افغانستان میں کامیابی کے لیے امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کا شفاف جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔سینیٹر مکین نے اس معاملے پر امریکی مشکلات پر زور دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں پاکستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا، لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی پاکستان سے دہشت گرد گروپ پڑوسی ممالک پرحملہ کرتے ہیں اور امریکی فورسز کو قتل کر رہے ہیں۔گزشتہ برس شمالی وزیرستان کا دورہ کرنے والے سینیٹر مکین نے علاقے میں کامیاب فوجی آپریشن کی تعریف بھی کی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا یہ افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں امریکی فوج کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوا۔انہوں نے کہا سادہ الفاظ میں اصل بات یہ کہ افغانستان میں ہمارامشن حیران کن طور پر مشکل ہے، جبکہ ہمارے دشمنوں نے پاکستان میں موجود محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں، جن کا خاتمہ ضروری ہے۔سینیٹر مکین نے نئی امریکی انتظامیہ پر زور دیا وہ کانگریس کے ساتھ مل کر اس بات کا تعین کرے کہ ایسے کون سے اضافی اقدامات اٹھائے جائیں جن سے افغانستان جنگ میں ہمارے دشمن پاکستان یا کسی اور ملک میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل نہ کر پائیں۔ کمیٹی کے ڈیموکریٹک ممبر سینیٹر جیک ریڈ نے اس بات پر اصرار کیا کہ پاکستان مبینہ طور پر افغانستان میں انتہا پسند گروپوں کی مدد کر رہا ہے، ان کا کہنا تھا، ہمیں اپنی کامیابی اور افغانستان میں بہتر سکیورٹی کے لیے ایسے اقدامات کو ختم کرنا پڑے گا'۔ جنرل نکلسن نے وزیرستان میں کئے گئے آپریشن کو بہت احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑا اور مشکل آپریشن تھا، جس میں پاکستان کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔سینیٹر مکین نے مزید سوال کیا کہ مگر مسئلہ حقانی نیٹ ورک کا ہے، خصوصی طور پر کوئٹہ میں موجود ان کے مقامات، کیا میں درست کہہ رہا ہوں؟جنرل نیکلسن نے جواب دیا سر یہ درست ہے، اب بھی کوئٹہ جیسے مقامات پر دشمنوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں، جنرل نیکلسن کا کہنا تھا وہ پاکستانی فوج اور اس کی قیادت کی بہت عزت کرتے ہیں۔ وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی ٹیم سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ اس میں کامیابی حاصل کریں گے۔ ہمیں فاٹا میں کی گئی پاک فوج کی کارروائیوں کا احترام ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کی لعنت سے پاکستانی عوام کو بھی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور ہم خلوص کے ساتھ ان عناصر کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو پاکستانی معاشرے پر حملہ کرتے ہیں۔ نیکلسن نے کہا امداد میں کمی سے پاکستان کو تعاون پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔جنرل نیکلسن نے تجویز پیش کی کہ دونوں ممالک کے تعلقات کا جامع جائزہ لیتے ہوئے، پاکستانی سربراہوں کے ساتھ مل کر دوبارہ پالیسی مرتب کی جائے۔انہوں نے کہا کہ ایسے بہت سے معاملات ہیں، جن میں ہم اپنے مشترکہ مفادات کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں،اور ان کے خیال میں یہی مستقبل کی کامیابی ہوگی۔انہوں نے کمیٹی کو آگا ہ کیا کہ وہ اس حوالے سے ذاتی طور پر کام کر رہے ہیں،وہ اپنے پاکستانی ہم منصب سے رابطے میں ہیں،اوراس حوالے سے ان کی اپنی اعلی قیادت سے بھی ابتدائی بات چیت ہوچکی ہے،اور یہ ہم سب کے لیے نہایت ہی اہم ہے۔جنرل نیکلسن سے امید ظاہر کی کے نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا دوبارہ جامع جائزہ لے گی۔ریپلکن سینیٹر ڈیوڈ پروڈو نے جب امریکی امداد کو پاکستان کے لیے استعمال کرنے کی تجویز پیش کی تو جنرل نکلسن کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک گروپ اور طالبان سمیت دیگر گروپوں کے ٹھکانے ختم کرنے اور انہیں محدود کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں محفوظ ؔٹھکانوں کا خاتمہ ضروری ہے، جان مکین؛ ملکر کام کرنا ہوگا، جنرل نکلسن
Feb 11, 2017 | 20:39