پی ٹی وی کی ڈوبتی نائو…سپریم کورٹ کا از خود نوٹس2

Feb 11, 2018

سرورمنیر راﺅ

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے جس انداز میں مختلف از خود نوٹس لینے شروع کئے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ وقت کا اہم تقاضہ ہیںاس کے ساتھ ساتھ ملک کی بگڑتی ہوئی معاشرتی ،سیاسی اور انتظامی ڈگر کو صحیح راہ پر ڈالنے کے لیے ناگزیر ہیں۔
میں نے گزشتہ ہفتے اس نوٹس کے حوالے سے سپریم کورٹ کو چند گذارشات پیش کیں تھیں۔ امید واثق ہے کہ عدالت عالیہ ان پر غور کرے گی۔ عطاالحق قاسمی صاحب نے سپریم کورٹ کی کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ" سپریم کورٹ میں مسئلہ یہ درپیش تھا کہ پی ٹی وی میں گزشتہ دو سال سے ایم ڈی کیوں مقرر نہیں کیا گیا؟چنانچہ اس حوالے سے سیکرٹری انفارمیشن نے اصل مسئلے کو بہت خوبصورتی سے پس پشت ڈالتے ہوئے پی ٹی وی کے سابق چیئرمین یعنی خاکسار کی طرف گفتگو مبذول کر دی اور کہا کہ ان پر دو سال کے دوران پی ٹی وی کے 27کروڑ روپے خرچ ہوئے"۔انہوں نے مزید کہا لکھا کہ" ان کے پروگرام کے چلنے والے اشتہارات (پرومو)کا فرضی خرچ بھی نکال کر اسے بھی میری تنخواہ کا حصہ قرار دے دیا گیا"۔ قاسمی صاحب کا کیس چونکہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لیے میں اس پر تبصرے سے گریز کرتا ہوں۔قاسمی صاحب کے موقف کی تائید کرتے ہوئے میں ضرور کہوں گا کہ چیف جسٹس صاحب بیوروکریسی کے ماہرانہ دائو پیچ کی صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ خوش قسمتی سے اس نوٹس کے ذریعے "صیاد ـ ـ ـ (پی ٹی وی کے حکام)خود ہی دام "میں آ گئے۔عدالت عالیہ کی ذرا سی توجہ سے پی ٹی وی جیسا موثر قومی ادارہ جو تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے بچ سکتا ہے۔عدالت عالیہ اگر آڈیٹر جنرل،ایف آئی اے اور نیب کو تحقیقات کا حکم دیں تو چند ہفتوں میںپی ٹی وی کے حوالے سے چشم کشا حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔ سبھی حکومتوں نے اس ادارے کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا۔پی ٹی وی میں خوش قسمتی سے ڈبل آڈٹ کا نظام ابتداء ہی سے موجود ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ اس کے ریکارڈ میں با آسانی ردوبدل کیا جا سکے۔ ذرا سی کوشش سے قومی دولت لوٹنے والے چوروں اور ڈاکوئوں کا سراغ مل سکتا ہے۔ان تحقیقات کے دوران اگر گزشتہ بیس سالوں کے دوران پی ٹی وی میں تعینات ہونے والے تمام چیئرمینوں اورایم ڈی حضرات کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے تو نیب کے ہاتھوں سے شاید ایک دو، خوش نصیب ہی بچ سکیں گے۔
سپریم کورٹ نے جس طرح ملک میں تعلیم اور صحت کے معاملات کوسلجھانا شروع کیا ہے اس سے تعلیم اور صحت کے پیشہ ور سوداگروں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔نیب کے چیئرمین بھی پوری طرح فعال ہیں۔ بس ایف آئی اے اور آڈیٹر جنرل کا آفس بھی اگر اسی طرح قومی اہد اف کی جانب بڑھنے لگے اور میڈیا باہمی رقابتوں اور سیاسی گرو بندی چھوڑ کر قومی انداز اپنا لے تو معاشرتی اصلاح اور جمہوری قدروں کو جلد استحکام حاصل ہو جائے گا۔
موجودہ حالات میں بظاہر ہمیں اکثرادارے باہم دست وگریباں نظر آتے ہیں۔ سیاسی اور عسکری چشمک کبھی زیر زمین اور کبھی بالائے زمین متلاطم نظر آتی ہے۔ ٹیسٹ ٹیبوب سیاسی جماعتیں اور پریشر گروپوں کے خول اتر رہے ہیں یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟اس کا جواب صرف اور صرف ایک ہے! جمہوری نظام کا چلنا،آمریت میں طاقتور اداروں نے دوسرے اداروں کو محکوم بنا لیا تھا،لیکن جمہوری نظام میں ہر ادارہ اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
سپریم کورٹ آزاد فضا اور Credibilityحاصل کرنا چاہ رہی ہے تو پارلیمنٹ اپنی سپریم حیثیت کی بحالی کے لیے کوشاں۔ شتر بے مہار میڈیا کے لیے بھی جمہوری نکیل تیار ہو رہی ہے۔بڑے بڑے اینکرز اور نام نہاد یونیورسٹیاں بنانے والے اپنے ہی جال میں پھنس رہے ہیں۔ ا س ماحول میں پی ٹی وی سمیت دوسرے اداروں کو لوٹنے والوں کا بھی یوم حساب بھی قریب ہے۔ یہ سب ایک فطری تاریخی عمل ہے ۔حرام کی کمائی کبھی سکون اور پھل نہیں لاتی۔ جن افراد نے انفرادی یا اجتماعی طور پر قومی جرائم کیے ہیں ان کی پکڑ کاآغاز ہو چکا ہے اعلیٰ عدلیہ کے دوسرے فیصلوں کی طرح پی ٹی وی کیس کا فیصلہ بھی یقینا اصلاح عمل کی جانب اہم پیش رفت ہو گا۔

مزیدخبریں