پہلی بار پاکستان نے’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے امریکہ اور اقوام عالم سے افغانستان کی سرز مین پر موجود دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف ’’ڈومور‘‘ کا تو مطالبہ کیا ہے۔ بھارت۔امریکہ گٹھ جوڑخطے میں افغانستان میں امن لانے کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کو ون بیلٹ ون روڈ کا کلیدی کردار ادا کرنے کی وجہ سے سزا دینے کیلئے بنا ہے۔ بھارت۔ امریکہ گٹھ جوڑ پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کرنا چاہتا۔ چین کے ساتھ شراکت میں نئے معاشی انقلاب کی راہ میں رکاوٹیں کرنے کی سازشیں کل بھوشن یادو نیٹ ورک، احسان اللہ احسان، کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور عزیر بلوچ نیٹ ورک کی شکل میں سامنے آچکی ہیں۔
جبکہ دوسری طرف بلوچستان میں افغانستان، بھارت اور سی آئی اے اپنے پنجے گاڑ رہی ہے۔ اس حوالے سے پاک فوج بہت جد وجہد کیساتھ اور انتہائی جانفشانی کیساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور گزشتہ دنوں بلوچستان ہی سے بڑی تعداد میں افغان انٹیلی جنس کے افسران پکڑے گئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی یہی امکان ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ وہاں بھی یہ لوگ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ جڑیں مضبوط کر رہے ہیں اورجیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ افغان حکومت کے چند عناصر حالیہ کابل حملے کو ممبئی حملوں کی طرز پر دنیا میں مشتہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو کہ ابھی تک تو ناکام ہیںلیکن اس حوالے سے امریکہ، بھارت اور افغانستان ہوم ورک کر رہے ہیںکہ اسے پاکستان کیخلاف کس طرح اور کب لانچ کیا جائے۔ میری ناقص اطلاعات کے مطابق کابل حملہ پاکستان کیلئے نائن الیون بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اور جس طرح ممبئی حملہ بھارت نے خود لانچ کیا اسی طرح افغان حکومت بھی ایسے ہی کسی منصوبہ بندی میں شریک نظر آرہی ہے۔
جب ایسے خطرات سر پر منڈلا رہے ہوں تو پاکستان کے بعض لیڈر جن میں نمایاں میاں نواز شریف ہیں وہ فوج اور عدلیہ کے خلاف جنگ کا محاذ کھڑا کیے رکھیں تو کیا یہ سوال نہیں اُٹھ سکتا کہ کیا اگر ملک کے لیڈر ایسے ہیں تو ہمیں دشمن کی کیا ضرورت کیا پھر عوام یہ سوال نہیں کرینگے کہ نواز شریف پاکستان کی نہیں بلکہ ذاتی جنگ لڑ رہے ہیں۔
کیا دنیا میں ایسے جنگیں لڑی جا سکتی ہیں؟ اگر ایک لمحے کیلئے یہ سوچ بھی لیا جائے کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو کیا انہوں نے پاکستان کی قیمت پر یہ ثابت کرنا ہے کہ اُنکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں پاکستان کے ساتھ ہمارا سب کچھ ہے۔ اس کیخلاف سازشیں کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والااب ہو یہ رہا ہے کہ نواز شریف اپنی ہی حکومت کیخلاف باتیں کر رہے ہیں کہ جب سے میں گیا ہوں اُس وقت سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اب پٹرول بڑھ رہا ہے، ملک میں سرمایہ نہیں آرہا، معیشت ڈگمگا رہی ہے، ڈالر کی اُڑان پکڑ میں نہیں، لوگوں کے کاروبار تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ مریم نواز کو یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ اُن کا کیرئیر ابھی شروع ہوا ہے، اور وہ اداروں، حکومت، سیاستدانوں اور عوام کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنے کے بجائے وہ مکمل ون سائیڈڈ ہو گئی ہیں؟ وہ خود کو نوجوانوں کی نمائندہ کہتی ہیں کیا ہم اپنے نوجوانوں کو یہ تربیت دے رہے ہیں کہ بیرونی سازشوں کو چھوڑو، پاکستان کے اداروں خصوصاً عدلیہ اور پاک فوج کے ہاتھ کمزور کرکے دشمن کے ایجنڈے کو مکمل کرو۔ انہیں خواتین کیلئے رول ماڈل ہونا چاہیے۔ اگر انہیں ملک کی خدمت کرنی ہے تو ایک پل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان پر اس وقت کن اطراف سے حملے کیے جار ہے ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارتی حکومت پاکستان کیساتھ تعلقات کو بات چیت کے ذریعے معمول پر لانے کے بجائے کشمیروں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہے اور کشمیر کنٹرول لائین کی تسلسل سے خلاف ورزی کرتے ہوئے قتل و غارت گری کا بازار گرم کئے ہوئے ہے لیکن مودی صاحب پاکستانی سیاسی قیادت سے ذاتی دوستی کو ترجیح دئیے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں سارک ممالک کے قائدین کیساتھ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے شرکت کی تو دنیا پر سجن جندال کیساتھ وزیراعظم پاکستان کے دوستانہ تعلقات کا بھی انکشاف ہوا۔ نیپال میں سارک کانفرنس منعقد ہوئی تو بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے مبینہ طور پر وزیراعظم نواز شریف سے نیپال میں خفیہ ملاقات کرانے کا ٹاسک بھی سجن جندال کو دیا تھا۔ جب بھارتی میڈیا میں نواز مودی مبینہ خفیہ ملاقات کا تذکرہ ہوا تو سجن جندال کھٹمنڈو میں موجود تھے اور جب 25 دسمبر 2015 میں بھارتی وزیراعظم نریندو مودی وزیراعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کیلئے اچانک کابل سے لاہور تشریف لائے تو بھی سجن جندال اپنی فیملی کے ہمراہ وزیراعظم کی نواسی کی شادی میں شرکت کیلئے لاہور میں موجود تھے۔ سجن جندال چند ماہ قبل کابل سے آکر مری میں وزیراعظم پاکستان سے مری میں خفیہ مذاکرات کر چکے ہیں۔ دراصل نریندر مودی بھارتی انتہا پسند دہشت گرد تنظیم RSS کے چیف ڈاکٹر موہن بھگوت کے انتہا پسند ہندو توا ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے افغانستان اور بنگلہ دیش کی سیاسی قیادتوں کو دوستی کی آڑ میں معاہدوں میں جکڑنے میں مصروف عمل ہیں۔ نریندر مودی چند ماہ قبل بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد سے بھی بھارت کیساتھ دفاعی معاہدے کیلئے MOU پر دستخط کرا چکے ہیں۔ کیا افغانستان اور بنگلہ دیش کو طفیلی ریاستیں بنانے کے بعد یہی جال پاکستانی سیاسی قیادت پر ذاتی دوستی کی آڑ میں پھینکا جا رہا ہے اِسکے بارے میں ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ درست ہے کہ متحارب مملکتوں کے درمیان دوطرفہ مسائل کے حل کیلئے دو طرفہ مذاکرات کو مثبت انداز سے آگے بڑھانے کیلئے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اداروں کے درمیان مربوط کوششوں کیلئے آج کی دنیا میں ٹریک ون اور ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے لیکن پاکستان کی موجودہ قیادت مبینہ طور پر بھارتی قیادت سے قومی امور پر معاملہ فہمی کے پروسس میں تو کامیاب نہیں ہو سکی ہے لیکن ذاتی تعلقات بظاہر اپنی معراج کو پہنچ چکے ہیں۔ ایک معروف بھارتی صحافی انجیلی اہوجہ نے اپنی 26 دسمبر 2015 کی رپورٹ میں اِس اَمر کا تذکرہ کیا ہے کہ سجن جندال کے لاہور میں قائم اتفاق گروپ کیساتھ تجارتی روابط موجود ہیں جبکہ معروف بھارتی اینکر، صحافی اور کتابوں کی مصنف برکھا دت کا کہنا کہ سجن جندال کے وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز سے دوستانہ مراسم ہیں۔ یہ مراسم اپنی جگہ اہم سہی لیکن ہمیں بھارت افغانستان گٹھ جوڑ کے پس منظر میں یہ نہیں بھلانا چاہیے بھارت آج بھی اکھنڈ بھارت کی تحریک کو مہمیز دے رہا ہے اور افغان قیادت کی مدد سے پاک افغان بارڈر کے نزدیکی علاقوں میں قونصل خانے قائم کر کے نہ صرف بلوچستان، کراچی اور قبائلی علاقوں میں تخریب کاری کو ہوا دے رہا ہے بلکہ افغان فوج کو بھی ڈیورنڈ لائین پر امن کی صورتحال کو خراب کرنے پر اْکسا رہا ہے جس کا پاکستانی افواج موثر جواب دے رہی ہیں۔
بہرحال ہماری سیاسی قیادت کو اِس اَمر کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ بھارتی حکومت چانکیہ کوٹلیہ کے سیاسی وچار کی نمائندگی کرتی ہے جو وقت گزرنے کیساتھ انتہا پسند ہندو سائیکی کا حصہ بن چکے ہیں۔ کوٹلیہ کا سیاسی فلسفہ ہندو ریاست کی موجودہ مودی ویژن کا بخوبی احاطہ کرتا ہے: ’’طاقت کی ہوس اور ہمسایہ ممالک کی فتح کے جذبے کو ہمیشہ قائم رکھو۔ ہمسایہ ریاستوں سے دوستی کے جذبات محض اْنہیں دھوکے میں رکھنے کیلئے استعمال کرو اور ہمسایہ ریاستوں پر دباؤ قائم رکھنے کیلئے اِن ریاستوں کے پار کی حکومتوں سے دوستی اور اشتراک عمل کے سلسلے کو آگے بڑھاؤ تاکہ تمہاری ہیبت قائم رہے‘‘۔ کیا ہماری سیاسی قیادت یہ سب کچھ نہیں جانتی ہے البتہ یہ اَمر خوش آئند ہے کہ افواج پاکستان مودی کی کوٹلیہ پالیسی کے خلاف ہردم متحرک ہیں اور ایٹمی پاکستان کے خلاف جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہر دم تیار ہیں۔
اوربے شک پاک افغان بارڈر طویل ہے، مگر پاکستان اب ڈرون بنا چکا ہے، اسے مزید بہتر کرکے پاک افغان سرحدی نقل و حرکت کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ہماری پہلی ترجیح بھارت اور افغانستان کا پاک مخالف مکروہ گٹھ جوڑ توڑنا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ شہروں میں چھپے دہشت گردوں کے وائٹ کالر ہمدردوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے۔ پوری قوم پاک فوج کے ساتھ ہے اور ملک میں امن چاہتی ہے۔ پاک فوج پاکستانی عوام کی مدد اور حمایت سے مٹھی بھر دہشت گردوں اور ان کے وائٹ کالر ہمدردوں کو ناکوں چنے چبوا دے گی۔ (ختم شد)