ایم کیو ایم تحریری طور پر تسلیم کرتی ہے کہ اس کا نظریہ تین تصورات یعنی مکمل ہم آہنگی، یکجہتی اور فعالیت پر مبنی ہے۔ یہ تصورات صرف حقیقت پسندی اور عملیت کے وسیلہ سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔ انکے بقول قرون وسطیٰ کے جاگیردارانہ نظام، سیاسی استبدادیت، معاشی عدم مساوات اور سماجی غیر فعالیت کا خاتمہ اور ثقافتی ہم آہنگی کا فروغ ہمارے مقاصد ہیں۔ ان تصورات کا ماخذ ایم کیو ایم کے بانی کی تعلیمات ہیں۔ ایم کیو ایم کے نزدیک پاکستان میں عامتہ الناس کی زندگی محض سیاسی ہی نہیں بلکہ دانشورانہ، اخلاقی، ثقافتی، مذہبی، سماجی اور اقتصادی معاملات پر بھی مشتمل ہے۔ ایم کیو ایم انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کیلئے سہ جہتی حکمت عملی تشکیل دی ہے۔ اولاً اختیارات اور فرائض کی اوپر سے نچلی سطح پر عدم مرکزیت۔ دوئم فرسودہ جاگیردارانہ نظام کا مکمل خاتمہ جس میں دو فیصد 98 فیصد کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے اور سوئم اقتدار کے ڈھانچہ میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شرکت ہو تاکہ اقتصادی اور سماجی طور پر محروم آبادی کو زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہو سکیں اور مزید یہ کہ ایم کیو ایم امن پسند سیاسی جماعت ہے جو عدم تشدد پر یقین رکھتی ہے اور ہر قسم کی دہشتگردی کیخلاف ہے۔یہ ایک ایسی جماعت ہے جو قرارداد لاہور 1940ء کی حقیقی روح کی بحالی چاہتی ہے جو چاہتی ہے خود مختاری، نظام حکومت کی ازسرنو تشکیل جان و مال کی حفاظت اور جانے کیا کیا۔ انکے نزدیک پاکستان کے تمام دساتیر چھوٹے صوبوں کے عوام کے بنیادی حقوق و تحفظ، جمہوریت، آزادی، سماجی انصاف اور مساوات مہیا کرنے میں ناکام رہے حتیٰ کہ کوئی دستور اپنا تحفظ بھی نہیں کر سکااور یہ ناکامی قرارداد لاہور کو اساتیر میں شامل نہ کرنے کی بنا پر ہوئی۔ انکے نزدیک چونکہ سینٹ غیر موثر ہے اس لئے مکمل صوبائی خود مختاری سے مسائل حل ہونگے اور وفاق کے پاس صرف دفاع، خارجہ امور اور کرنسی ہی ہونا چاہئیں جبکہ وفاق خود کوئی ٹیکس نہ عائد کر سکے اور نہ ہی جمع کر سکے۔تاریخ کے اوراق پلٹنے سے قبل آج کی صورتحال کا جائزہ ضروری ہے۔ تین تصورات مکمل ہم آہنگی پریس کانفرنس کے جواب میں رات گئے پریس کانفرنس سے پوری طرح عیاں ہے۔ یکجہتی ایسی کہ کمال ہو گیا کمال اور پورے فلک پر اس کی روشنی نظر آ رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے بطن سے ایسے ایم کیو ایم جنم لے رہی ہے جیسے مسلم لیگ کے خوبصورت جسم سے ہر کچھ عرصہ بعد نئی نظریاتی اور ضروریاتی مسلم لیگ جنم لیتی ہے اور فعالیت کہ دن رات الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے انکی فعال اور مصروف زندگیوں، ارشادات، خیالات اور تنقید سوچ اور لائحہ عمل کے ذریعہ پیدا ہونے والی تحریکات کی داستان سناتے سو بھی نہ سکے۔ انکے نزدیک ابھی بھی قرون وسطیٰ کا جاگیردارانہ نظام اور سیاسی استبداد موجود ہے اور وہ اپنی رابطہ کمیٹی کے ذریعہ اس کو بانی کے خیالات اور تصورات سے مالا مال ہو کر عوام کو تعلیم یافتہ کر رہے ہیں۔ 1988ء سے حکومتوں کا حصہ رہنے والی ایم کیو ایم کے کراچی میں تین میئر بھی بن چکے ہیں۔ ایسی سیاسی جماعت جو بیوروکریسی کے خوبصورت چہرے کو دھول سے دھندلا کرتی رہتی ہے اس کی رابطہ کمیٹی میں بھی سرکاری ملازمین کے شامل ہونے گویا نامزد ہونے کا رونا بھی صاحب اقتدار و کمال و اختیار روتا ہے۔ انقلاب برپا کرنے کی داعی یہ جماعت اپنے اندر پیدا ہونیوالے انقلاب کو دبانا چاہتی ہے اور اگر نہ دب سکا یا پھر برپا ہوا تو نظریہ ضرورت عدالتوں نے ختم کیا ہے سیاسی جماعتوں نے نہیں کا نعرہ بھی تو لگ سکتا ہے۔
سہ جہتی حکمت عملی رکھنے والی یہ جماعت 98 فیصد پر دو فیصد کو حق حکمران دینے کو تیار نہیں جبکہ جمہوریت میں فیصلہ کرنے کا اختیار بھی اپنے آئین کے تحت اکثریت کو دینا نہیں چاہتے۔ کہا گیا کہ کسی اجلاس میں ہاتھ بھی اٹھ گیا چونکہ عدم تشدد پر ایمان رکھتے ہیں اور آزادی اور جمہوریت کیلئے تگ و دو کر رہے ہیں۔ مساوات ہوتی تو تھپڑ کا جواب تھپڑ سے دے دیا جاتا لیکن کیا کیا جائے۔ فرسودہ نظام ابھی تک منہ زور ہے اور ملک کا کوئی بھی دستور اپنی حفاظت بھی خود نہ کر سکا جبکہ دستور تحریری ہوتا ہے اور تھپڑ استبدادی نظام کی طرح زور آور ہی لگا سکتا ہے۔ قرارداد پاکستان کے تحت چونکہ خود مختاری مکمل نہیں مل سکی اس لئے الیکشن کمشن کو ہر دو گروپ مکمل آزادی کے حصول کی درخواست لکھ چکے ہیں۔ جانے مرکزیت کے تحت چلنے والا الیکشن کمشن کسی کو نظر عنائت کے قابل قرار دیتا ہے۔ دھاندلی کا الزام تو ایک نے لگانا اور دوسرا راستہ جو انقلابی بھی ہو سکتا ہے اختیار کرنے کا راستہ بھی تو ابھی بند نہیں ہوا۔ کوئی ایک تو چھوٹے صوبے کی طرح شکایت کنندہ رہے گا۔ حق خود مختار کی دستاویزات بھی تیار کرنا ہوں گی پھر ضابطوں کا غلام بن کر نئے نشان کے ساتھ نیا علم اٹھا کر رجسٹریشن کا طوق بھی گلے میں ڈالنا ضروری ہو گا۔ ممکن ہے یہ سب کچھ نہ ہو اور پھر اسی تنخواہ پر کام کرنے کو تیار ہوں۔ مگر کیا کیا جائے کہ دراڑ پڑ کر شیشہ مشکل تو دکھاتا ہے مگر ٹوٹ جاتا ہے۔ شیشہ دیکھا جائے تو آفاق احمد، عامر خان اور بدر اقبال کو ماضی کے جھروکوں سے نکال کر یاد کرنا ہو گا۔ چونکہ عظیم طارق کے بارے بھی وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ آفاق اور عامر تو متحرک ہیں اور بدر اقبال کے بارے راقم پوری طرح واقف نہیں کہ کس مقام پر کس حال میں ہیں۔ یہ تو یاد ہے کہ وہ اپنی زندگی کے بارے خطرات کی بات کرتے تھے۔
یہ غالباً اپریل 1991ء کی بات ہے کہ جب ایم کیو ایم اس وقت بھی اقتدار کی معراج پر ہونے کے باعث سب کچھ کر سکتی تھی مگر اسکے اندر ناراض ارکان پر مشتمل ایک گروپ منظم ہو گیا تھا۔ یہ بات اس وقت مشہور ہوئی کہ ایم کیو ایم کے بانی نے اپنی جماعت کے 169 ارکان کی ایک فہرست جام صادق علی کو دی ہے کہ انکے ان مخالفین کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جائے۔ آفاق احمد اور عامر خان جو ایم کیو ایم کے عہدیدار تھے اس گروپ میں شامل تھے مگر حالات کے جبر کے باعث امریکہ چلے گئے۔ عظیم طارق نے بہت سے ارکان کے اخراج کا اعلان کیا اور کہا کہ منحرف ارکان کو الگ کر دیا ہے۔ یہ الزام بھی لگایا کہ عامر، آفاق اور بدر اقبال نے بانی کے قتل کی سازش تیار کی تھی۔ پھر انہوں نے بعض افراد پر رشوت ستانی، اقربا پروری، بدعنوانی اور خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ تعلق کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ اس شرمناک حرکت پر بانی علیل ہو گئے ہیں۔ آفاق احمد، عامر اور بدر اقبال نے امریکہ سے بیان جاری کیا کہ نہ ہم نے کوئی جرم کیا ہے نہ فرار ہوئے ہیں۔ کچھ فیصلوں سے اختلاف پر کنارہ کشی کی ہے اور ہمیں خاموشی اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور ہمیں کہا گیا ہے کہ کسی سے رابطہ نہ کریں۔ رخصت کرتے وقت بیٹا بیٹا کہہ کر رخصت کیا گیا ہے۔ 10 مارچ 1991ء نواز شریف ہسپتال گئے تو ان کو ہزاروں افراد کفن پوش نظر آئے۔ ساڑھے تین گھنٹے وزیراعظم وہاں رہے۔ 18 مارچ کو موصوف نے اپنی پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے جنرل اسلم بیگ سے کہا کہ ملک میں مارشل لا لگا دیں۔ اخبارات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا کیونکہ آزادی اظہار جس پر جان لے لی جاتی تھی پریقین مضبوط ہو۔ بعض اخبارات کے دفاتر نذر آتش کر دئیے گئے۔کراچی تھا کہ حالات درست ہی نہ ہو رہے تھے یکم جون 1992ء کو فوجی آپریشن ایک بار پھر شروع ہوا۔ آپریشن میں ایم کیو ایم کے بہت سے لوگ زیر زمین چلے گئے بعض ارکان قومی اسمبلی حقیقی میں شامل ہوئے۔ ناقص اور قابل اعتراض حکمت عملی کے نتیجہ میں دونوں دھڑے آپس میں خوب لڑے لوگ قتل ہوئے کرفیو لگانا پڑا۔
ایک صادق اور امین بریگیڈئر آصف ہارون نے کہا کہ ان دو گروپوں کی لڑائی بھائیوں کی لڑائی ہے۔ فوج اور پولیس کو تب سے کراچی میں را کے ثبوت اور اسلحہ مل رہا ہے اسلحہ بھی ایسا کہ راکٹ لانچر، اے کے 47 گولہ بارود بالاخر سپریم کورٹ کو کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرنا پڑی۔ فوج کو وسیع پیمانے پر آپریشن پھر کرنا پڑا۔ بالاخر 22 اگست 2017ء آ گیا اور پاکستان مخالف نعرے تقاریر سبھی کچھ ہوا۔ 23 اگست کو ایم کیو ایم کے بطن سے ایک نئی ایم کیو ایم نے جنم لیا۔ کمال کرنے والوں نے خوب کمال کیا اور مصطفیٰ کمال نے انٹری ڈالی۔ ایک اور ایم کیو ایم بمقابل ایم کیو ایم بذریعہ پی ایس پی بن گئی۔ حکمران ایم کیو ایم کے کچھ وزرا مطلوب ہیں۔ کچھ اہم ارکان مفرور ہیں۔ عامر خان آفاق کو چھوڑ کر پھر بھائیوں کے ساتھ ہیں مگر کیا کریں اب پھر ایم کیو ایم بخلاف ایم کیو ایم سرگرم عمل ہے چند دن انتظار کریں اور دیکھیں کیا ہوتا ہے۔