’’شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن‘‘ ۔ترجمان دفتر خارجہ کا بھارتی آرمی چیف کو کراراجواب
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت پاکستان مخالف بیانات دے رہے ہیں‘ ہم انہیں بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ جو بھی کہہ لیں‘ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن۔ ہماری افواج ہر بھارتی جارحیت کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ گزشتہ روز اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں انہوں نے باور کرایا کہ پاکستان اپنے دفاع کیلئے تمام اقدامات کریگا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس بھارت کی جانب سے ایک ہزار 970 مرتبہ کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی جبکہ کنٹرول لائن پر بھارتی اشتعال انگیزیوں میں اب مزید اضافہ ہوچکا ہے اور گزشتہ ایک ہفتے میں بھارتی فوجیں متعدد بار جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی مداخلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت آج تک جواب نہیں دے سکا کہ یادیو کے پاس حسین مبارک کا پاسپورٹ کہاں سے آیا۔ انہوں نے بتایا ہم جنوری 2017ء سے اس بھارتی جاسوس کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات مانگ رہے ہیں مگر بھارت یہ دستاویزات فراہم کرنے پر آمادہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تخریب کاری کیلئے بھارتی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مودی پاکستان کے معاملات میں کھلم کھلا مداخلت کرتے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان کی غیردفاعی امداد روکنے کے بل کا جائزہ لے رہے ہیں۔
بھارت کو تو درحقیقت ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی حیثیت سے پاکستان کی تشکیل ہی گوارا نہیں ہوئی چنانچہ اسکی ہندو لیڈرشپ نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا شروع دن سے ہی اپنی پالیسی کا حصہ بنالیا تھا۔ پاکستان کی 70 سال کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اسے اپنی مغربی سرحدوں پر بھارت کی جانب سے آج تک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا اور ہمارا یہ پڑوسی ہمہ وقت ہماری سلامتی کیخلاف مکارانہ گھنائونی سازشوں میں مصروف رہا ہے۔ اس نے صرف زبانی کلامی سازشوں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انہیں وقتاً فوقتاً عملی جامہ بھی پہناتا رہا ہے۔ پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرنا‘ اسے سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرکے دولخت کرنا‘ کشمیر پر تسلط جما کر پاکستان پر آبی دہشت گردی کا مرتکب ہونا‘ کنٹرول لائن پر آئے روز کی اشتعال انگیزیوں سے جنگی جنون بڑھانا‘ 74ئ‘ 98ء میں ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرنا‘ پاکستان کو دہشت گردی کے ذریعے غیرمستحکم کرنے کیلئے بلوچستان میں ’’را‘‘ کا تخریبی نیٹ ورک پھیلانا‘ پاکستان چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی اعلانیہ منصوبہ بندی کرنا اور ہندو انتہاء پسند مودی کا مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں عملاً حصہ لینے کا فخریہ اعتراف اور بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کی معاونت و سرپرستی کا کھلم کھلا اعلان کرنا اس ملک خداداد کی سلامتی کیخلاف بھارتی گھنائونی سازشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چنانچہ پاکستان کے ساتھ کھلم کھلا دشمنی پر اترے ہوئے بھارت سے یہ توقع رکھنا پرلے درجے کی حماقت ہوگی کہ وہ پاکستان کے ساتھ امن سے رہنے کا بھی کبھی سوچ سکتا ہے اور مذاکرات کی میز پر وہ مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کی راہ پر آسکتا ہے۔ اب ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کی بنیاد پر تو ہمارے اس شاطر دشمن کے حوصلے اور بھی بلند ہوگئے ہیں اور امریکہ کی ودیعت کردہ علاقے کی تھانیداری اسے ہضم نہیں ہورہی چنانچہ بھارتی آرمی چیف ہی نہیں‘ وزیر دفاع اور وزیراعظم بھی پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے عزائم کا کھلم کھلا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ سابق بھارتی آرمی چیف ایس کے سنگھ جو آج بھارتی حکمران بی جے پی کی کابینہ کا حصہ ہیں‘ بدمستی میں بیجنگ اور اسلام آباد کو 96 گھنٹے میں بیک وقت ٹوپل کرنے کی گیدڑ بھبکی لگا چکے ہیں چنانچہ ان بھارتی عزائم نے ہی چین اور پاکستان کو دفاعی تعاون کیلئے ایک دوسرے کے قریب کیا اور پھر اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبہ کی بنیاد پر شہد سے میٹھی‘ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری پاک چین دوستی مزید مضبوط ہوگئی۔ آج پاکستان اور چین کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں جن کا دشمن بھی مشترکہ ہے اور اقتصادی استحکام‘ خوشحالی اور ملکی دفاع کے حوالے سے مفادات بھی یکساں ہیں اس لئے بھارت کو اپنے جارحانہ عزائم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے منہ کی کھانا پڑیگی۔ پھر بھی دفاع وطن کیلئے ہمیں ایٹمی ٹیکنالوجی سمیت اپنے تمام گھوڑے ہمہ وقت تیار رکھنے ہیں اور دفاع وطن کی ذمہ دار ہماری سکیورٹی فورسز کو سرحدوں پر مستعد و چوکس رہنا ہے کیونکہ آج پاکستان اورمسلم دشمن ٹرمپ انتظامیہ کے ماتحت امریکہ بھی ہمارے ساتھ کھلم کھلا دشمنی پر اترا ہوا نظر آتا ہے جو ایک جانب ہمارے دشمن بھارت کے ساتھ جنگی دفاعی تعاون کے لاتعداد معاہدے کرکے اسکی جنگی دفاعی استعداد بڑھا رہا ہے تو دوسری جانب ہماری فوجی امداد بند کرکے ہمارے ہاتھ پائوں باندھ رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو فون کرکے اسی تناظر میں بھارت کو سکیورٹی تعاون بڑھانے کا یقین دلایا ہے اس لئے آج بھارت کے ساتھ امن اور دوستی سے رہنے کی کسی خواہش کا اظہار کرنا بھی مناسب نہیں۔ ہمیں بہرصورت اپنی سلامتی کیلئے فکرمند ہونا چاہیے اور اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ہمارا دشمن بھارت امریکی سرپرستی میں آج ہماری سلامتی پر وار کرنے میں زیادہ سہولت محسوس کررہا ہے چنانچہ وہ ہذیانی کیفیت میں گیدڑ بھبکیاں لگاتا اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان پر جارحیت مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کرتا نظر آتا ہے۔ اس تناظر میں آج قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا مستحکم بنانا زیادہ ضروری ہے جس کیلئے تمام قومی سیاسی و عسکری قیادتوں کو ایک صفحے پر آکر دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کا عملی ثبوت دینا ہوگا۔
بدقسمتی سے آج قومی اتحاد و یکجہتی کی مثالی صورتحال موجود نہیں ہے اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف اپنے اور اپنے خاندان کیخلاف نیب کے مقدمات کی بنیاد پر اداروں کے ساتھ ٹکرائو کا راستہ اختیار کرکے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا تاثر پختہ کررہے ہیں۔ ہمارا مکار دشمن بھارت تو پہلے ہی ہماری کسی اندرونی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے موقع کی تلاش میں ہے اس لئے میاں نوازشریف کو اقتدار سے محرومی کے اپنے ذاتی غصہ کو ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بھارتی عزائم کا کرارا جواب دیتے ہوئے اس مکار دشمن کو ’’شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن‘‘ کا ایمان افروز ٹھوس پیغام دیا ہے تاہم جذبہ ایمانی کے خالی خولی اظہار سے دفاع وطن کے تقاضے نہیں نبھائے جاسکتے۔ آج حکومت‘ اپوزیشن اور قومی ریاستی اداروں سمیت ہر ایک کو اپنی اپنی انا کی قربانی دینا ہوگی اور باہم یکجہت ہوکر دشمن کو قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کی جھلک دکھانا ہوگی۔ ہمارے مناصب‘ کاروبار اور سیاستیں سب کچھ اس ملک کی بدولت ہی ہیںاس لئے آج اس مادر وطن کا دفاع اور اسکے چپے چپے کی حفاظت ہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ملک زندہ سلامت ہے تو ہمارے کاروبار‘ سیاست اور روزگار حیات کے دیگر معاملات بھی چلتے رہیں گے۔ اگر خدانخواستہ ملک ہی نہ رہا تو کس سرزمین پر اقتدار کا کھیل کھیلا جائیگا اور ایک دوسرے کو پچھاڑنے کیلئے دائو پیچ آزمائے جائینگے۔ ہماری عزت‘ آن‘ آبرو اور ساکھ سب اس ارضِ وطن کے ساتھ ہے۔ خدا کے فضل سے عساکر پاکستان دفاع وطن کے تمام تقاضے نبھانے کی مکمل اہلیت و صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان پر سیاست کی جائے نہ انہیں سیاست میں ملوث ہونے دیا جائے بصورت دیگر ملک کے اس دفاعی حصار میں کسی قسم کی کمزوری درآئیگی تو چاروں جانب سے خطرات میں گھرے اس ملک خداداد کی سلامتی کو محفوظ رکھنا بہت مشکل ہو جائیگا۔