احمد جمال نظامی
موجودہ حکومت اقتدار سے پہلے سابقہ حکومتوں پر بھاری بھر کم اور بغیر کسی حکمت عملی کے قرضے لے کر اس کا بوجھ ملکی معیشت اور عوام پر لادنے کا طعنہ دیتے ہوئے عوام کو نوید سنایا کرتی تھی کہ وہ اقتدار ملنے پر ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ بلکہ ملکی معیشت کو مضبوط تر کرنے کے لئے وطن عزیز پاکستان کو خودانحصار ی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ سابقہ اپوزیشن جماعت جو اس وقت حکمران جماعت ہے اس کی طرف سے اس نکتے کو بار بار اجاگر کرنے پر کئی تجزیہ نگار بھی کسی نہ کسی بہانے اس بحث پر ازسرنو لب کشائی کا سلسلہ جاری رکھتے تھے اور اس طرح اسلام آباد سے ملکی معیشت کو خودانحصار پذیر بنانے کی کئی تجاویز سامنے آتی رہیں۔ جس پر وزیراعظم عمران خان بھی دونوں بڑی جماعتوں کی حکومتوں کو خوب ہدف تنقید بناتے تھے۔ لیکن اب موجودہ حکومت کے پہلے چھ ماہ کے حوالے سے اقتصادی امور ڈویژن کی ایک ایسی رپورٹ سامنے آئی ہے جس نے نہ صرف عوام الناس بلکہ معاشی و اقتصادی، سیاسی اور سماجی حلقوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر ہمارے ملک کی معیشت کو ہر آنے والا حکمران کس انداز میں چلاتا ہے اور ان کا انداز حکمرانی کیا ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے زمانے میں ملک کو معیشت کے شعبے میں اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے فوری بعد اسلام آباد کو پہلے جیسا محتاج رکھا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے اقتصادی امور ڈویژن کی جو رپورٹ اخبارات اور میڈیا کی صورت میں سامنے آئی ہے اس کے مطابق تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں دو ارب 30کروڑ ڈالر کا قرض حاصل کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اسی مدت کے دوران 5ارب 90کروڑ ڈالر کا بیرونی قرضہ لیا گیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے جولائی سے دسمبر کے دوران دو تین ارب ڈالر کا قرضہ لیا جس میں چین سے 83کروڑ 60لاکھ ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق کمرشل بینکوں سے چھ ماہ میں 50کروڑ ڈالر، ایشیائی ترقیاتی بینک سے 33کروڑ 90لاکھ ڈ الر جبکہ اسلامی ترقیاتی بینک سے 27کروڑ 20لاکھ ڈالر کا قرض حاصل کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کا اگر سابقہ سال کے اسی دورانیہ سے موازنہ کیا جائے جیساکہ رپورٹ میں بھی اس کی نشاندہی کی گئی ہے تو موجودہ حکومت نے سابقہ حکومت کے تقریباً لگ بھگ اتنا ہی قرضہ حاصل کیا ہے بلکہ اس قرضے کی شرح میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اب اس پر موجودہ وزیرخزانہ ڈاکٹر اسدعمر اور دیگر متعلقین کا کیا موقف ہو گا؟ اس سے قطع نظر اس تلخ حقیقت کو سامنے رکھنا چاہیے کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی ڈگر پر چل نکلی ہے اور ابھی اس حکومت کی طرف سے سابقہ حکومت کی طرح آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل نہیں کیا گیا لہٰذا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آئندہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جاتا ہے تو قرض کا حجم کس شرح تک پہنچ جائے گا۔
ان دنوں ایسی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے اس مطالبے کو بجلی کو مزید مہنگا کیا جائے اس سے انکار کر دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وطن عزیز میں ٹیکس کی شرح کو مزید بڑھانے کی ضرورت نہیں۔ ایسی خبروں کے سامنے آنے کے باوجود درپردہ حکومت کی طرف سے قرضے بھی حاصل کئے جا رہے ہیں اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اسلامی ترقیاتی بینک سے بھاری قرضے بھی حاصل کئے گئے ہیں اس کے علاوہ کئی کمرشل بینک اور ہیں جن سے قرضہ جات حاصل کئے جا رہے ہیں لہٰذا سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے ہاں روزبروز حکومت پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیوں کرتی چلی آ رہی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی بات بھی سمجھ میں آ رہی ہے۔ چند روز قبل حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آدھا روپیہ کمی کی تھی جس کو عوامی اور معاشی و اقتصادی حلقوں کی طرف سے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو تسلیم کرتے ہوئے سوچنا ہو گا کہ انہوں نے نئے پاکستان کے نام پر عوامی حلقوں بلخصوص نوجوانوں اور پڑھے لکھے طبقے کو روایتی سیاسی کلچر سے باہر نکالنے کا نعرہ لگا کر ایک ایسا خواب دکھایا تھا جس کے مطابق وہ ملکی معیشت کو قرضوں کی بیساکھیوں کی بجائے خود اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا دعویٰ کرتے تھے۔ اب جبکہ اقتدار کی کمان ان کے ہاتھ میں ہے وہ بااختیار ہیں تو انہیں چاہیے کہ فوری طور پر ملکی معیشت کو قرضوں سے آزاد کرنے کے لئے اقدامات شروع کریں۔ عمران خان ملیشین ماڈل کی بہت بات کرتے ہیں اور مہاتیر محمد سے اپنی دوستی کا ڈنکا بھی بجاتے ہیں لیکن مہاتیر محمد کے عملی اقدامات سے شایدابھی استفادہ نہیں کیا گیا ۔ اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے ملک میں عملی بنیادوں پر قرضوں کا خاتمہ کیا جاتا۔ قرضہ جات کے ذریعے جس طرح معاملات اور نظام حکومت کو چلایا جاتا ہے کبھی ان محکموں اور حکومتی ایوانوں کو بھی قرضوں کے بغیر کاش چلایا جائے اور عوام کے ساتھ ساتھ ان سے بھی قربانی لی جائے تاکہ قلیل مدت میں معیشت کو اپنے پاؤن پر کھڑا کیا جا سکے۔ اس کی سب سے بنیادی ضرورت اس لئے درپیش ہے کہ جن کل پرزوں یعنی متعلقہ حکومتی وزارتوں، بیوروکریسی ڈویژن وغیرہ نے معیشت کو درست سمت پر گامزن کرنا ہے جب تک ان سے قربانی لیتے ہوئے قربانی کا جذبہ پیدا نہیں کیا جائے گا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا تاہم موجودہ حکمرانوں کو عوامی صورت حال گوش گزار کرتے چلیں کہ جس معیشت کی مضبوطی کا وہ نعرہ لگاتے اور بغلیں بجاتے نہیں تھکتے تھے ان کے دوراقتدار میں مہنگائی کی شرح میں روزافزاں اضافہ جاری ہے۔ بنیادی اشیاء ضروریہ سے لے کر جان بچانے والی ادویات تک کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سامنے آ چکا ہے۔ عوام اس صورت حال میں بلبلا رہی ہے اور وہ اس امید و انتظار میں ہے کہ کب وزیراعظم عمران خان اپنے دعوؤں کے مطابق اس نئے پاکستان کی تشکیل کر پائیں گے جس میں غریب آدمی کو بھی کم از کم امراء کے برابر بنیادی ضروریات زندگی و سہولیات میسر ہوں گی۔ جس میں صحت، تعلیم اور خوراک کے معاملات سرفہرست ہیں۔ لہٰذا حکومت فوری طور پر اقدامات اٹھائے وگرنہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح دیر ہو جائے گی اور پھر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ تبدیلی کا نشان تحریک انصاف کا بھی سیاسی عمل ماضی کی روایتی سیاسی جماعتوں سے مختلف نہیں تھا۔