پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کا عبرتناک انجام

کبھی کبھی پیچھے مڑ کرتاریخ کے صفحات پر بھی نظر ڈال لینی چایئے۔ پاکستان ان دنوں ایک معاشی گرداب میں ہے۔ سووئت روس بھی معاشی بحران سے دوچار ہوا تو امریکہ نے اسے افغانستان میں الجھا کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا تھا۔ اس سے قبل پاکستان ایک سیاسی بحران سے دوچار ہوا تو بھارت نے مشرقی پاکستان میں شورش پید اکر کے دو لخت کر دیا۔ تب جو حالات تھے، ان میں تین کردار پاکستان کی شکست و ریخت میں انتہائی سرگرم تھے۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب جس نے چھ نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلا کر اپنے صوبے میں اکثریتی ووٹ حاصل کر لئے۔ مغربی پاکستان میں بھٹو کو اکثر یت حاصل ہوئی۔ عوامی مینڈیٹ کے مطابق اقتدار شیخ مجیب کو منتقل کرنا ضروری تھا مگر ان پر غداری کا مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ ملک پر یحییٰ خان کا مارشل لا مسلط تھا۔ ان کی حکومت نے قومی اسمبلی کااجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا مگر بھٹو نے دھمکی دی کہ جو اس اجلاس میں شرکت کے لئے جائے گا، ا سکی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ ان کی حکم عدولی احمد رضا قصوری نے کی۔بھٹو دور حکومت میں انکے والد کو قتل کردیا گیا۔ اس مقدمے میں بھٹو کو پھانسی کی سزا ہو گئی۔بھٹو کے ایک بیٹے کی فرانس میں پراسرار حالات میںموت وقع ہو گئی۔ دوسرے بیٹے کراچی کی ایک شاہراہ پر شہید کر دیئے گئے اور بیٹی محترمہ بے نظیر کو بھی مشرف دور میں شہید کرا دیا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کے سیاسی بحران کا فائدہ اٹھانے کے لئے فوجی جارحیت کا فیصلہ کیا مگر دنیا کو اپنا ہم نو ابنانے کے لئے انہوںنے کئی ملکوں کے دورے کئے۔یوں پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کر دیا گیا۔ عالمی میڈیا مشرقی پاکستان کی محرومی کی داستانوں سے بھرا پڑا تھا۔ اوپر سے جو فوجی آپریشن ہوا، اس میں مقامی آبادی پر مظالم کی داستانیں تراشی گئیں۔ تیسری طرف مشرقی پاکستان کے باغی عناصر کو دہشت گردی کی تربیت کے لئے کلکتہ میں کیمپ قائم کئے گئے۔ یحییٰ خان نے ایک غلطی کی کہ مغربی محاذ پر تین دسمبر کو جنگ چھیڑ دی جس کے جواب میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر یلغار کر دی ا ور چندد نوں کے اندر پاک فوج کو سر نڈرپر مجبور کر دیا۔ پاکستان کی طرف سے جنرل نیازی نے بھارتی جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ یوں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہو گیا۔اور اندرا گاندھی کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ پاکستان کے دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا۔ شیخ مجیب اس وقت مغربی پاکستان میں قید تھے، انہیں پورے ا عزاز کے ساتھ ایک خصوصی جہاز ڈھاکہ لے گیا جہاں بنگلہ بندھو کو نئی ریاست کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔ مغربی پاکستان میں یحییٰ خان نے بھٹو کو سول چیف مارشل لاا یڈ منسٹریٹر کے طور پر اقتدار منتقل کیا۔ یوں یحییٰ خان تو گوشہ گمنامی میں چلے گئے اور بھٹو نئے پاکستان کے مدارالمہام بن بیٹھے۔ا نہیں اس مقام تک پہنچنے کے لئے سازشوں کا جال بننا پڑا۔ الیکشن کے مینڈیٹ کی انہوںنے یوں تشریح کی کہ ادھر تم ، ادھر ہم۔ یہ ایک نرالی منطق تھی۔ الیکشن کل پاکستان کی بنیاد پر منعقد ہوا تھا۔ یہ کوئی پاکستان کو دو لخت کرنے کا ریفرنڈم نہیں تھا لیکن بھٹو نے یحییٰ خان کی اشیر باد سے اسے ایک ریفرنڈم کے طور پر ہی پیش کیا۔ اصولی طور پر مغربی پاکستان میں نئے الیکشن ضروی ہو گئے تھے مگر پچھلے الیکشن کی بنیاد پر ہی بھٹو نے اقتدار پر شب خون مارا۔ہو سکتا ہے اس وقت کوئی دوسری چوائس نہ ہو۔ اور جی ایچ کیو کو بامر مجبوری بھٹو کو تاجدار بنانا پڑا ہو۔یا یہ سب کچھ پہلے سے طے بھی ہو سکتا ہے۔پاکستان کو توڑنے کے اس عمل میں بظاہر تین کردار تھے، اندرا گاندھی۔ شیخ مجیب۔ اور بھٹو۔پاکستان سے عشق کرنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مملکت خداد اد تھی جس کے قیام کے لئے لاکھوں لوگوںنے قربانی دی اور لاکھوں خواتین ہی کی آبرو بھی لٹی۔ اس مملکت کو دو لخت کرنے والوں کو قدرت نے معاف نہیں کیا۔ شیخ مجیب کو اسی کے گھر کی سیڑھیوں پر گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو دفتر جاتے ہوئے ا س کے باڈی گارڈز نے ان پر تابڑ توڑ گولیاں چلا دیں اور وہ خون کے تالاب میں نہا گئیں۔ اندرا گاندھی کے دو بیٹے سنجے گاندھی اور راجیو گاندھی تھے ۔ وہ بھی لقمہ اجل بن گئے ۔اس طرح نہرو خاندان کا نام و نشان مٹ گیا۔پاکستان میں بھٹو کو بظاہر توایک قتل کے جرم میں پھانسی ہوئی مگر گلی محلے کا ایک عام آدمی بھی یہ سمجھتا ہے کہ بھٹو صاحب مکافات عمل کا شکار ہوئے اور مملکت خداد اد کو دولخت کرنے کے جرم میں تقدیر نے انہیں سزا دی۔اکہتر کے سانحے کے تین کردار یکے بعد دیگرے موت کے منہ میں چلے گئے۔ ہم آج بھی پاکستان کو ریاست مدینہ کی شکل دینے کی بات کرتے ہیں مگر جن لوگوںنے تحریک پاکستان میں حصہ لیاا ور قربانیاں دیں، ان کے دلوں میں کوئی جھانک کے دیکھے جو پاکستان کامطلب کیا لاالہ الا اللہ کے نعروں پر وجد میں آجاتے تھے ،جو قائدا عظم کی انگریزی زبان میں تقریروں کو سمجھتے نہیں تھے لیکن ا س امر کی گواہی دیتے تھے کہ یہ شخص سچ بول رہا ہے۔ تو قائد نے یہ سچ ہی بولا تھا کہ پاکستان ایک خدائی عطیہ ہے اور ہم اسے اسلامی مملکت کا نمونہ بنا کر دکھائیں گے۔ ایسے ملک کو طوائف الملوکی کا شکار کرنا ۔یہاں برسہا برس تک مارشل لا نافذ کر دینا اور جمہوریت کے نام پر بلیم گیم اور محاذ آرائی اور سیاسی انتقام کی آگ بھڑکانا تو کسی طور پر مملکت خداد داد میں کسی کو زیب نہیں دیتا تھا، لیکن یہ سب کھلواڑ اس بے چارے ملک کے ساتھ کیا گیا۔ اور اس کا فائدہ ہمارے دشمن ہمسائے نے اٹھایا مگر تقدیر نے کسی مجرم کو معاف نہیں کیا۔ اب یہ سمجھ سے باہر ہے کہ یحییٰ خان کیسے مکافات عمل سے بچ گئے ۔ ان کے ساتھی بھی مشرقی پاکستان کی شکست کے برابر کے ذمے دار تھے مگر سب کوحمودالرحمن کمیشن کے صفحات میں چھپنے کا موقع مل گیا۔مجھے یہ سب کچھ آج اس لئے یادا ٓ رہا ہے کہ پاکستان کے اندر پھر ایک سیاسی بحران جنم لے رہا ہے۔ کہیں حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی چل رہی ہے ، کہیں بلوچستان کے علیحدگی پسند سر اٹھا رہے ہیں۔ کہیں پشتون محاذ کھڑا ہو گیا ہے اور کہیں آزاد کشمیر کو پاکستان سے نجات دلائو کے نعرے لگ رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے اندر بھی ایسا لاوا پک رہا ہے کہ آج پھر ہمارا ہمسایہ دشمن ہماری کمزوری اور کشاکش کا فائدہ اٹھانے کی باتیں علی الاعلان کر رہا ہے۔ مودی نے سر عام کہا ہے کہ جیسے مشرقی پاکستان کے عوام کو حق دلوائے تھے اور ہر بھارتی نے اس میں کر دار ادا کیا تھا، اسی طرح پاکستان کے عوام کو ان کے حقوق دلوا کرر ہوں گا۔ اس نے بلوچستان کے حقوق کی بات کی ہے۔گلگت بلتستان کے حقوق کی بات کی ہے اورا ٓزاد کشمیر کے حقوق کی بات کی ہے۔ دشمن کے ایجنٹ کل بھوشن کے بھیس میں ہماری صفوں میں گھس گئے ہیں اورمیرے مرشد محترم مجید نظامی تو ملکی میڈیا میںبھارتی شردھالوئوں کی کھل کر مذمت کرتے تھے۔ یہ بھارتی شردھالو نواز شریف کے قریبی مشیر تھے جو کہتا تھا کہ واہگہ کی لکیر کیوں ہے۔ان شردھالوئوں کو نواز شریف نے بے حد نوازا تاکہ وہ ملکی میڈیا میں اپناہم نوا جتھہ تیار کریں مگر میں جب پیچھے مڑ کر تاریخ کے صفحات پر نظر ڈالتا ہوں تو خدا پر میرا ایمان پکا ہو جاتا ہے۔ اس نے پاکستان کے ایک ناممکن قیام کو ممکن بنایا۔ یہ ایک خدائی معجزہ ہے اور جو اس معجزے کی تحقیر اور تنقیص کرے گا وہ بھٹو، اندرا گاندھی اور شیخ مجیب کے حشر سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
٭٭٭٭٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن