بے چاری نصیبو، ریڈ زون، مہنگی گیس اور اخراجات!!!

Feb 11, 2021

محمد اکرم چوہدری

دیکھیں جی مجھے نصیبو لعل پسند ہو یا نہ ہو، پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کا گانا پسند آئے یا نہ آئے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ نے ثابت کر دیا ہے کہ انہوں نے پی سی بی کو تجربہ گاہ ضرور بنا دیا ہے۔ نت نئے تجربات ہو رہے ہیں۔ کہیں کوچز کو کوچنگ سکھائی جا رہی ہے، قومی ٹیم میں لا کر کھلاڑیوں کو کرکٹ سکھائی جا رہی ہے کیونکہ نچلی سطح پر تو کرکٹ کا ستیا ناس احسان مانی اینڈ کمپنی کر ہی چکے ہیں۔ پی ایس ایل کے فرنچائز مالکان کے ساتھ چھپن چھپائی بھی کھیل رہے ہیں۔ بعض لوگوں کو انتظامی امور کا تجربہ دیا جا رہا رہ گیا تھا پی ایس ایل کا ترانہ اسے بھی تجربات کی نذر کرنے کا فیصلہ کر کے کرکٹ بورڈ نے دنیا بھر میں کچھ سیکھنے کی خواہش رکھنے والوں کو پیغام دیا ہے کہ ہم حاضر ہیں، ہمارا پلیٹ فارم حاضر ہے ہم ناصرف سیکھنے سکھانے کا نیک کام کر رہے ہیں بلکہ اس عمل میں بھاری معاوضہ بھی ادا کریں گے۔ نصیبو لعل تو بے چاری مفت میں تنقیدی توپ خانے کی زد میں آ گئی ایک تو اس بیچاری کو پی ایس ایل کا کچھ پتہ نہیں دوسرا جس نے گانا بنایا اسے نصیبو کا کچھ پتہ نہیں اور کرکٹ بورڈ سے جس نے میوزک ڈائریکٹر کو لگایا اسے تو شاید کچھ اتہ پتہ نہیں کیونکہ جیسا گانا ریلیز ہوا ہے یہ سب کچھ کم علمی میں ہی ہوا ہے یا پھر بیخبری میں ہوا ہے ورنہ آج کے جدید اور باخبر دور میں جہاں پہلے سے اچھے بھلے ترانے موجود ہوں وہاں ایسا پھس پھسا ترانہ کون سنے گا یا کون اس کی تعریف کرے گا ماسوائے ان چند لوگوں کے جن کے مفادات پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ وابستہ ہیں یا پھر ان چند لوگوں کے جنہیں ہر وقت ہر کام کی تعریف کے سوا کچھ نہیں آتا۔ بات ہو رہی تھی بیچاری نصیبو کی وہ ایک اچھی گلوکارہ ہیں ان کے سننے والے بھی موجود ہیں لیکن اس گانے میں اصل ناکامی کرکٹ بورڈ اور میوزک ڈائریکٹر کی ہے دونوں یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ ترانوں کے لیے کن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔  
درحقیقت یہ سطحی سوچ کے حامل افراد کا زمانہ ہے ماہر افراد چونکہ خوشامد نہیں کرتے صاف بات کرنے والوں اور باصلاحیت افراد کو خوشامد کی ضرورت نہیں ہوتی وہ یہ کام نہیں کرتے اور ارباب اختیار اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اقتدار کو طول دینے کے لیے سطحی سوچ کے حامل افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کی ترقی کا پیمانہ اس کے تعمیراتی اور تخلیقی کام ہوتے ہیں ان دونوں شعبوں میں ہونے والے کام سے آپ ادارے کے مستقبل بارے اندازہ کر سکتے ہیں۔ میوزک ایک تخلیقی کام ہے اور کرکٹ بورڈ نے اس گانے کو پسند اور منظور کر کے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے بینقاب کر دیا ہے۔ اس کے بعد اگر اس بورڈ کے فیصلے سے ہونے والی تباہی پر بھی کسی کو حیرانی ہو تو اسے اپنا معائنہ بھی کروا لینا چاہیے کیونکہ انہوں نے اپنی نالائقی پر مہر لگا دی ہے۔ ایسا ترانہ ہے کہ بورڈ کو اپنے کھلاڑیوں سے ٹویٹ کروانا پڑے ہیں جب کہ لوگوں نے اتنا مذاق بنایا ہے کہ کانوں کو ہاتھ لگ گئے ہیں۔ کہیں کانوں سے خون نکل رہا ہے، کہیں بچے ڈر رہے ہیں تو کہیں میلوڈی کی تباہی کا نام دیا جا رہا ہے۔ بیچاری نصیبو لعل کو کسی نے ترانہ دیا نہیں اور اگر ملا بھی ہے تو وہ کسی کی نالائقی کی نذر ہو گیا ہے۔
ایک خبر ہے جس کی آخری لائن نہایت دلچسپ ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ وفاقی حکومت کی منظوری سے ہو گا۔ جب میں یہ خبر پڑھ رہا ہوں تو مجھے پیارے فواد چودھری بہت یاد آ رہے ہیں۔ فواد نے چند دن قبل کہا تھا کہ مہنگائی قابو کرنا وزیراعظم کے اختیار میں نہیں یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ پیارے فواد اب آپ ہی بتائیں جب وفاق گیس مہنگی کر دے گا تو صوبے بیچارے کیا کریں گے۔ گیس سے جڑی تمام اشیا مہنگی ہوں گی۔ وفاقی وزراء  کے پاس بہت سادہ بہانہ ہو گا کہ یہ سب کچھ ماضی کی حکومتوں کا کیا دھرا ہے جو کچھ ہو رہا ہے ان کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ جیسا کہ آج بھی کہیں کہیں چند وزراء نے یہی کہا ہے کہ آج جن مسائل سے دوچار ہیں ان کی ذمہ داری ماضی کی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے مظاہروں کو بھی حزب اختلاف کی جماعتوں پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ او اللہ دے بندیو کجھ تے کرو۔ کیا وزراء  کو صرف اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ ہر وقت یہی بتاتے رہیں کہ سب کچھ جانے والے کر گئے ہیں حالانکہ اتنا وقت وہ کچھ کرنے میں لگاتے تو شاید مسائل حل ہو جاتے اب آپ کہیں گے کہ انہوں نے کچھ کیا کیوں نہیں اب میں یہ کیسے کہوں کہ بہت سوں کو کچھ آتا ہی نہیں چلیں چھوڑیں یہ باتیں پھر سہی ابھی آپ کو بتاتا ہوں کہ گیا کتنی مہنگی ہوئی ہے۔ سوئی ناردرن کے صارفین کیلئے گیس کی اوسط قیمت تیرہ روپے بیالیس پیسے فی یونٹ بڑھانیکی منظوری دی گئی ہے۔ گیس کی قیمت میں اضافے کی منظوری یکم جولائی دو ہزار بیا سے دی گئی ہے جبکہ گیس میٹر کا کرایہ بھی بیس روپے سے بڑھا کر چالیس روپے کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ یہاں پہلے ہی لوگوں کے پیٹ خراب رہتے ہیں گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ان کے لیے ایک نئی بیماری کا موقع فراہم کر دیا گیا ہے۔ یوں بیماری کو قانونی حیثیت دینے کے لیے بس وفاقی حکومت کی منظوری کی ضرورت ہے۔ یقین ہے کہ حکومت کو اس بارے کوئی اعتراض نہیں ہو گا کیونکہ حکومت تو پہلے ہی ہیلتھ کارڈز جاری کر چکی ہے سو ان کارڈز کو استعمال کرنے کا موقع فراہم کرنا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔
ہمارا ریڈ زون بھی گرین زون ہی معلوم ہوتا ہے جس تعداد میں اس طرف مارچ ہوتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب سے آسان ہدف ہے۔ گذشتہ روز  سرکاری ملازمین اور قانون نافذ کرنے والا ٹونٹی ٹونٹی میچ کھیلا گیا جہاں بس چوکے چھکے ہی لگتے رہے ہیں۔ مظاہرین نے ڈی چوک میں لگائے گئے کنٹینر عبور کرکے پارلیمنٹ ہاؤس جانے کی کوشش کی تو پولیس شیلنگ سے انہیں روکنے کی کوشش کی اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اب ایسے موقعوں پر کبھی تند و تیز بیانات جاری نہیں کرنے چاہییں لیکن موجودہ حکومت کے وزرا￿  کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے دماغ کم اور زبانیں زیادہ چلتی ہیں کوئی شبلی فراز سے پوچھے اس موقع پر اخراجات کم کرنے کا مشورہ دے کر وہ کس کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ملازمین تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور وزیر اطلاعات انہیں اخراجات کم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں کسی عقلمند کو یہ بات ہضم نہیں ہو گی۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ لوگ اپنے اخراجات کم کر دیں تو حکومت پہلے مہنگائی کم کر کے اخراجات میں کمی کا سامان کرے پھر بھی لوگ باز نہ آئیں تو حکومت احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے ہو سکتا ہے یہ کوشش کامیاب ہو جائے۔ مظاہرین نے موٹر وے چوک چھبیس نمبر چونگی پر ٹریفک بلاک کردی۔ یہ کوشش اس لیے کی گئی کیونکہ پولیس نے دوسرے شہروں سے آنے والے مظاہرین کو روک دیا تھا اس ٹریفک بلاک کے نتیجے میں شاہراہ سری نگر پر گاڑیوں کی لمبی لائن لگ گئی۔ شاہراہ دستور میدان جنگ کا منظر پیش کرتی رہی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شاید بھارتی کسان احتجاج کرتے کرتے یہاں پہنچ گئے ہیں۔ ہم تو کئی ہفتوں سے بھارتی کسانوں کے مظاہروں کا مزہ لے رہے تھے دوسروں کے کاموں کا مزہ لیتے لیتے اپنے ملک میں بھی وہی کچھ کروا دیا ہے جس پر دشمنوں کی ناکامیوں پر خوش ہو رہے تھے۔ بہرحال یہ ایک تکلیف دہ کہانی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکومتیں کبھی عام آدمی کے مسائل کبھی احتجاج کے بغیر حل نہیں کرتیں۔ صرف سرکاری ملازمین ہی نہیں حکومت کو تمام شہریوں کی آمدن میں اضافے کے لیے حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ سارا ملک تو سرکاری ملازم نہیں ہے لیکن آمدن میں اضافہ تو سارے ملک کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں