بات تو کہاں سے کہاں نکل گئی صوفی صاحب کو گھر میں سب بڑے بائوجی کہہ کر پکارتے تھے۔ دادا ابو گو بہت خاموش طبع تھے مگر پھر بھی اُن کا گھر میں رعب اور دبدبہ سب محسوس کرتے تھے۔ حویلی کے گیراج میں تین گائے بندھی ہوتیں جس کا دودھ اور مکھن گھر میں ہی استعمال ہوا کرتا۔ ہماری پڑدادی جن کو ہم سب اماں جان کہتے تھے۔ میری دادی جان میرے والد کی شادی سے پہلے دنیا سے پردہ کرچکی تھیں۔ پڑدادی اماں جان کا بڑوں اور بچوں پر بہت رعب تھا اور وہ سارے گھر کی دیکھ بھال خود کرتیں صوفی صاحب کی بہن بہت اچھا کھانا بناتیں۔ حویلی کا دسترخوان بہت وسیع تھا اور ہر وقت مصروف رہتا۔ صبح کے ناشتے میں آلو کی بھجیا حلوہ اور کشمیری چائے تیار ہوتی اور گرم گرم مدرے کلچے اپنی دکان سے آجاتے جسے صوفی صاحب کے چھوٹے بھائی دیکھتے اور سنبھالتے تھے۔
اکثر جمعہ کو ہماری پڑدادی دودھ کا دیگچہ تیار کرتیں جس میں برف اور شربت بھی ڈالا جاتا۔ گرمیوں میں برف کا ٹھنڈا میٹھا دودھ باہر کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو آوازیں دے کر بلایا جاتا اور سٹیل کے لمبے گلاسوں میں پلایا جاتا۔ کسی ہفتے چنے اور پھلیوں کے ساتھ بچوں میں کریانہ بھی تقسیم کیا جاتا تھا۔ چھوٹے بچوں کو کھلا پلا کر میری دادی جان اور گھر والے بے حد خوش ہوتے۔ میں اب سوچتی ہوں کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو کھلانے پلانے کا یہ کیسا خوبصورت سلسلہ تھا جس میں ہم سب گھر کے بچے بھی بہت لطف اندوز ہوتے۔ گھر میں کھانا پکتا اور دسترخوان پر سب اکٹھے بیٹھ کر کھاتے۔ صوفی صاحب کی گیلری اُنکے دوستوں، شاعروں، آرٹسٹوں سے بھری رہتی۔ کبھی کبھی گھر کے صحن میں قوالی کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ نادرہ افضل وٹو کیونکہ میری پھوپھو کی کلاس فیلو بھی تھیں مجھے کہنے لگیں تمہیں یاد ہے قوال کون تھے؟ میں نے کہا مجھے کچھ کچھ یاد ہے مگر نام یاد نہیں کہ وہ کون تھے۔ وہ بولیں: وہ عزیزمیاںبسمل خاں قوال تھے اُن کی قوالی کا یہ ابتدائی دور تھا مگر بعد میں وہ بڑے نامور قوال ہوئے۔ سنت نگر ایسا علاقہ تھا جہاں بڑے نامور آرٹسٹ رہتے تھے جو صوفی صاحب کے گھر بھی آتے جن میں خالدہ ریاست، روحی بانو (جو میرے والد کی شاگرد بھی تھیں) اسلم پرویز، اورنگ زیب،عفت جبیں، فردوس جمال، محمد علی بھی اکثر صوفی صاحب کے پاس گیلری میں تشریف لاتے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب محمد علی نے ابھی فلموں میں کام شروع نہیں کیا تھا محمد علی زیڈ اے بخاری کے منہ بولے بیٹے بھی تھے۔ نادرہ افضل وٹو کے چچا غلام کبریا اور اُن کے والد کا صوفی صاحب سے پیار محبت کا رشتہ تھا۔ کوئی بھی محفل اُن کے بغیر ادھوری ہوتی پاکستان کی نامور گلوکارہ فریدہ خانم جی بھی وہاں تشریف لاتیں اور موسیقی کی محفلیں بھی منعقد کی جاتیں جس میں ملک کے نامور شاعر آرٹسٹ شرکت کرتے تھے۔ خواجہ پرویز کئی کئی گھنٹے صوفی صاحب کے ساتھ بیٹھک کرتے شوکت علی اُس وقت بہت چھوٹے اور گلوکاری کے میدان میں اپنے قدم جما رہے تھے۔ ریڈیو کی بہت سی شخصیات جن میں سلیم گیلانی، اکرم بٹ، غلام علی، ملکہ ترنم نور جہاں، نذیربیگم، فریدہ خانم جی جب اکٹھے ہوتے تو محفل کو چار چاند لگ جاتے۔ اُستاد دامن صاحب کی بھی صوفی صاحب سے بہت محبت تھی گو سنت نگر کی حویلی ادب کا گہوارہ تھی اور ۱۹۶۴ء تک رہی اُس کے بعد صوفی صاحب اپنے ادبی حلقے کو سمیٹ کر سمن آباد والے گھر شفٹ ہوگئے جو اُنہوں نے بڑی مشکلات سے گذر کر تعمیر کروایا تھا۔ صوفی تبسم آخری وقت ۷فروری ۱۹۷۸ء تک یہیں قیام پذیر رہے۔ (یادداشتیں)
کچھ اس طرح سے تیری یاد چھن گئی ہم سے
سفر میں جیسے کوئی ہم سفر کو کھو بیٹھے
………………… (ختم شد)
یاد دِل سے تری نہیں جاتی
Feb 11, 2021