اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران عدالتوں میں وکلاء حملے کا تذکرہ چلتا رہا۔ سینئر وکلاء کی طرف سے واقعہ پر شرمندگی کا اظہار کردیا گیا۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ میں ایکشن لے سکتا تھا۔ میں نے اکیلے محصور رہنے کا فیصلہ کیا۔ میں ایکشن لیتا تو کہتا اپنے ہی ایڈووکیٹس کے خلاف کارروائی کرائی۔ مجھے کہا گیا کہ آپ کو یہاں سے نکالتے ہیں۔ میں نے ہائیکورٹ سے جانے کے بجائے ساڑھے تین گھنٹے یرغمال رہ کر سامنا کیا۔ میں نے ہمیشہ متعلقہ اتھارٹیز کو معاملات کے حل کے لیے ترجیح دی۔ اس معاملے میں بھی اتھارٹی بار کونسل ہے۔ انہیں اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔ وکیل اپنی عزت خود کرا سکتے ہیں۔ 95 فیصد وکلا بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ، وکلاء تحریک کے 90 شہداء کی تذلیل ہے۔ سینئر وکلاء نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ پر ہونے والے حملے پر ہم شرمندہ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھ سمیت کوئی قانون سے بالا نہیں، قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ یہ حملہ میری ذات پر نہیں عدلیہ اور ادارے پر حملہ ہے۔ پانچ فیصد نے اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ کیا۔ 95 فیصد تو پروفیشنل وکیل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں دروازے پر پہنچا تو وکلاء دروازہ توڑ چکے تھے۔ پولیس میری حفاظت کے لیے آئی تو پولیس کو میں نے خود پیچھے ہٹنے کا کہا۔ مجھے 3 گھنٹے تک محصور رکھا گیا لیکن میں کھڑا رہا۔ 6 ہزار کی بار میں صرف ایک سو وکلاء نے حملہ کیا لیکن بدنامی سب کی ہوئی۔ وکلاء نے اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ کر کے سب کو راستہ دکھایا ہے کہ یہ طریقہ ہے؟۔ اس موقع پر سینئر وکیل میاں عبدالرؤف نے عدالت کو یقین دلایاکہ ایسا واقعہ دوبارہ نہیں ہو گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا واقعہ دوبارہ تب نہیں ہو گا جب اس واقعہ کے ذمہ داران کو مثال بنایا جائے۔ یہ عدالت بار کونسل سے امید کرتی ہے کہ وہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ ایسے واقعات پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ہر وکیل اپنی عزت خود بنا سکتاہے عدالت نہیں بنا سکتی۔ سینئر وکیل میاں عبدالرؤف نے کہا کہ یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کس نے چند وکلاء کو استعمال کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تاثر نہ دیں کہ کوئی سازش ہوئی۔ سب جانے پہچانے چہرے تھے، کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حملہ کسی اور نے کرایا؟۔ وہاں تو سارے ہمارے لوگ تھے۔ ایک چیز یاد رکھیں تاریخ کبھی غلط نہیں لکھی جاتی۔ سات سال میں نا کسی غیر قانونی کام کو سپورٹ کیا نہ ہی کروں گا۔ میں کبھی توقع نہیں کر سکتا تھا کہ یہ لوگ مجھ پر اٹیک کر سکتے ہیں۔ آپ کو پتہ نہیں کہ کون اس کو لیڈ کر رہا تھا۔ ان گملوں کا کیا قصور تھا، شیشے کیوں توڑے گئے۔ ہم کس طرف چل پڑے ہیں۔ قائد اعظم نے پروفیشنل کنڈکٹ کی وجہ سے یہ پاکستان حاصل کیا۔ ادھر جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں بھی واقعہ کا تذکرہ چلتا رہا۔ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری وقاص ملک اور میاں عبدالرؤف سمیت دیگر وکلاء عدالت پیش ہوئے۔ میاں عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں عدالت میں پیش ہوا ہوں لیکن شرم محسوس کر رہا ہوں۔ جس ہر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کیوں شرمندہ ہو رہے ہیں۔ یہ اسکا عکس ہے جو ہم بن چکے ہیں۔ ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیا بن چکے ہیں۔ یہ واقعات تو پنجاب میں گوجرانوالہ اور لاہور وغیرہ میں ہوا کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عزت ذلت اللہ کی طرف سے ہے۔ وقاص ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان اقدامات کی وجہ سے پورے ملک میں وکلاپر تْھو تْھو ہو رہی ہے۔