اس ضمن میں ڈیلی میل کے رپورٹر ڈیوڈ روز نے 14جولائی 2019 کو ا یک مضمون شائع کیا جس میں برطانوی حکومتی ادارے برائے بین الاقوامی کی جانب سے صوبہ پنجاب کو 2005 کے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے فراہم کی گئی امداد کو کرپشن کا ذریعہ قرار دیااور اس رقم سے کک بیکس اور کمیشن کا ذکر بھی کیا۔ اس کرپشن میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے داماد علی عمران کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ یہ رقم زلزلہ بحالی اور تعمیر اتھارٹی کو فراہم کی گئی تھی تاکہ اسے زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے استعمال کیا جا سکے جس میں سکولوں کی مرمت اور تعمیر نو شامل تھی۔ان الزامات کے جواب میں برطانوی حکومت نے واضح کیا تھا کہ تمام رقوم میں آڈٹ کیا گیا تھااور جس مقصد کے لیے رقوم کو دیا گیا تھا اس کو باقاعدہ چیک بھی کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے ان رقوم میں کرپشن اور کک بیکس کے الزامات کو غیر سنجیدہ اور عدم ثبوت کی بنیاد قرار دیا تھا۔(جاری)
اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد اس کے شدید نوعیت کے اثرات اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف پر نمودار ہوئے۔ پاکستانی سیاست میں شہباز شریف کو شدید تنقید کا سامنا تھااور خیا ل کیا جاتا تھا کہ برطانوی اخبار کے شائع مضمون کی بنیاد جامع ثبوت کی موجودگی ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں شہباز شریف نیب کی جانب سے عائد منی لانڈرنگ کے مقدمات کا سامنا کر رہے تھے۔ ڈیلی میل کے وکلاء نے شہباز شریف کے خلاف الزامات کو محدود اور مفروضوں پر مبنی قرار دیا اور انہوں نے وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے بیان کا حوالہ دیا کہ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ غبن کی گئی رقم کو بر آمد بھی کیا گیا ہے ۔ ڈیلی میل کے وکلا ء نے عدالتی کاروائی کے دوران کہا ہے کہ ان کے اخبار نے شہباز شریف پر براہ راست الزام نہیں لگایا ۔ شہباز شریف کے وکلا ء نے ڈیلی میل کی جانب سے عائد الزامات کو بے بنیاد اقرار دیا اور دلائل دیے کہ شہباز شریف کی توہین کی گئی ہے۔ ابتدائی سماعت کے بعد کیس کی باقائدہ سماعت تقریباً ۹ ماہ سے ایک سال کے دوران دوبارہ شروع ہو گی۔ اسطرح ڈیلی میل کو پاکستان میں جاری تحقیقات پر انحصار کرنا پڑے گااس وقت شہباز شریف نیب کی حراست میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جس میں منی لانڈرنگ اور اثاثہ جا ت کا آمدن سے زائد ہونا شامل ہے۔نیب شہباز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کر چکی ہے ۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ شہباز شریف اور علی عمران پاکستانی شہری ہیں اور ان کے خلاف الزامات بر طانیہ کے معروف اخبار ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز نے عائد کیے ہیں جو کہ برطانوی شہریت کے حامل ہیں ۔ برطانوی نظام انصاف کے مطابق اگر برطانوی شہری یا ادارہ کسی کے خلاف الزامات عائد کرتا ہے چاہے وہ غیر ملکی ہی کیوں نہ ہو اسے ثابت کرنا ضروری ہے کہ الزامات کی بنیاد ٹھوس شواہد تھے اور اس سے کسی شخص یا ادارہ کی ہتک عزت نہ ہوئی ہے۔
شہباز شریف کی جانب سے دائر کیس انتہائی دلچسپ ہے کیونکہ ڈیلی میل کو آئندہ سماعت پر مؤثر ثبوت پیش کرنا ضروری ہے اور ثبوتوں کی فراہمی کیلئے پاکستان میں شہباز شریف کے خلاف تحقیقات پر انحصار کرنا پڑے گا ۔ اگر پاکستان باضابطہ ثبوتوں کو ڈیلی میل کو فراہم کرتا ہے تو ایک بات ثابت ہو جائے گی کہ بر طانوی ٹیکس دہند گان کی رقم میں کرپشن ہوتی ہے اور کک بیکس بھی لیے گئے ہیں ۔ اسطرح ڈیلی میل کی جانب سے عائد الزامات درست ثابت ہو جائیں گے اور پاکستانی حکومت برطانوی ٹیکس دہندگان کا اعتماد کھو سکتی ہے۔ مستقبل میں برطانوی حکومتی ادارے برائے بین الاقوامی ترقی حکومت پاکستان کو امداد دینا ختم کر سکتے ہیں جسکے اثرات دیگر بین الاقوامی اداروں پر بھی پڑ سکتے ہیں ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں حکومت پاکستان شہباز شریف بنام ڈیلی میل مقدمہ کا از سرِ نو جائرہ لے تاکہ مستقبل میں کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچا جا سکے۔ (ختم شد)