وطن عزیز کی 72 سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو کسی بھی دور میں صحافت مکمل طورپر آزا د نہیں رہی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ کسی دور میں صحافت پر پابندیاں کم کسی دور میں زیادہ رہی ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت آزادی صحافت کے حوالے سے پوری دنیا میں نیک نام تھا۔ بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد صحافت اس طرح جکڑ بندیوں کا شکار کر دی گئی جس طرح غیر جمہوری معاشروں میں صحافت کو قدغنوں کی بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔ نریندر مودی یا بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے منفی نتائج واثرات پر قلم اٹھانے والے میڈیا کے وابستگان کو قید و بند، سنگین مقدمات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔
دریں اثنا بھارت میں جاری کسانوں کے احتجاج کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی حمایت نے بھی مودی سرکار کی بوکھلاہٹ میں اضافہ کر دیا ہے۔ امریکی پاپ سنگر ریہانہ نے بھارتی کسانوں کے حق میں ٹویٹ کیا تو دلچسپ صورت یہ پیدا ہوائی کہ مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد سے بھرے ہوئے انتہا پسند ہندوؤں نے ریہانہ کو ’ریحانہ‘ سمجھ کر اس کے خلاف تبرا شروع کر دیا۔ اس کے پتلے جلائے گئے اور اسے پاکستان کا ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ وہ امریکی پوپ سنگر اور عیسائی ہے تو بھی کسی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ اسی طرح ہالی وڈ کے اداکاروں للی سنگھ، جمیلہ جمیل سوسان سنرڈن نے بھی کسانوں کے احتجاج کی حمایت کر دی ۔ ہالی وڈ سٹار سوسان سنرڈن نے ٹویٹ کیا میں بھی بھارتی کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہوں۔ نیویاک ٹائمز میں شائع رپورٹ کے حوالے سے لکھا ’’کسانوں کی بات سنی جائے۔ ‘‘جمیلہ جمیل نے انسٹا گرام پوسٹ میں کسانوں کی تائید کی۔ انٹرنیٹ بند کرنے پر بھی مودی سرکار پر عالمی سٹارز کی جانب سے سخت تنقید کی گئی۔ تاہم ریہانہ کو ریحانہ سمجھنے کا معاملہ دلچسپ ہے۔ یہ نام بھارتیوں کے ذہنوں میں زیادہ واضح طورپر اس لئے ہے کہ ریحانہ الہ آباد ی نامہ اداکارہ نے 1970 یا 1971 میں ’دستک‘ فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور مجروح سلطان پوری کی لکھی غزل کو جس انداز میں فلمبند کرایا اس سے پورے بھارت میں دھوم مچ گئی تھی۔ اس غزل کا ایک شعر ہے …؎
ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
یہ تو مودی حکومت اور اس کے حامی انتہا پسند ہندووں کی مسلمان دشمنی اور خود عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف عالمی ردعمل کی ایک جھلک ہے۔ بات ہو رہی تھی بھارت میں آزادی صحافت کی۔ بھارتی صحافی روشی کمار نے سندیپ پرنیا کی گرفتاری پر رنج و غم کا اظہار کیا اور اس سے میرے جذبات شدید مجروح ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہاتھرس کیس میں صدیق کپن کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ کانپور کے صحافی امیت سنگھ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح صحافیوں راج دیپ سرڈیسائی اور سدھارتھ واردا راجن پر بھی مقدمات بنا دیئے گئے ہیں۔ ان کا قصور یا جرم مودی سرکار کی پالیسیوں کے خطرناک نتائج کو اجاگر کرنا ہے۔ روش کمار نے ٹویٹ کیا ’جیل کی دیواریں آزاد آوازوں کو روک نہیں سکتیں ۔ جو اظہار خیال کی آزادی پر پہرے بٹھانا چاہتے ہیں وہ دراصل دیش کو جبل میں بدلنا چاہتے ہیں۔ آزاد آوازوں اور سوال کرنے والے صحافیوں کو رات کی تاریکی میں مودی سرکار کی پولیس اٹھا کر لے جاتی ہے اور دور دراز علاقوں میں ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ ملک میں وزیر اعظم جیل بندی سکیم (جیل بھروسکیم) کا آغاز ہو چکا ہے۔ سوال کرنے والے صحافی جیل میں رکھے جائیں گے تو اور باتیں ہوں گی ۔ جیل سے اخبار نکلے گا اورباہر اخبارات میں خوشامد پسند لکھا کریں گے جس دن عوام یہ بات سمجھ جائیں گے۔ اسی دن ملک کے گاؤں گاؤں میں ٹریکٹروں ، بسوں، ٹرکوں کے پیچھے ، ہوائی جہازوں، بلٹ ٹرین، منڈیوں ، میلوں ، بازاروں اور بیت الخلائوں کی دیواروں پر یہ بات لکھدی جائے گی ‘ ’غلام میڈیا کے رہتے ہوئے کوئی ملک آزاد نہیں رہ سکتا‘ تاہم گودی میڈیا (یعنی گود میں بیٹھا میڈیا) سے آزاد ہو کر نئی آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
بھارت میںآزادی صحافت کے حوالے سے موجودہ صورتحال کا جو نقشہ مندرجہ بالا سطورمیں پیش کیاگیا ہے جائزہ لیں وطن عزیز میں صحافت پر پابندیوں کے ایسے خدوخال تو نہیں ہیں۔ عمیق نہیں سرسری جائزہ سے بھی ایسی ہی ملتی جلتی صورت کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت اپنے اقتدار کو میڈیا کی زبردست اور مسلسل حمایت کا مرہون منت گردانتی ہے اور شائد اس حقیقت نے حکومت کو میڈیا کو جکڑ کر رکھنے کی طرف راغب کیاہے کہ جس طرح میڈیا نے سابق حکمرانوں کے خلاف کردار کشی پر مبنی پروپیگنڈے اور پی ٹی آئی کے انقلابی دعوئوں کو بڑھا چڑھا کر عوام کی اس کی حمایت پر اکسایا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ میڈیا اب ہمارے خلاف بھی عوم میں مخالفانہ جذبات پید ا کر کے ہمیں اقتدار سے باہر کرنے کی راہ ہموار کر دے۔ اسی خوف نے میڈیا کو ’مکو ٹھپنے‘ کیلئے بطور ہتھیار استعمال کرنے کا چلن اختیار کرنے کا راستہ دکھادیا ہے۔ بھارت میںخوشامد کرنے والے اور حکومت کی گود میں بیٹھنے والے صحافی خوب پھل پھول رہے ہیں۔
پاکستان کی بات کریں تو سمجھدار اور نا سمجھ صحافی ہر دور میں رہے ہیں۔ نا سمجھدار صحافی اپنے اپنے ادوار میں مشکلات و مصائب کو گلے لگا کر آزادی صحافت کی جدوجہد جاری رکھتے رہے اور
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
جیسے عزم کا اظہار اور نتائج بھگتتے رہے ہیںاور بھگت رہے ہیں۔ وطن عزیز میں آزادی صحافت کیلئے حمیدنظامی نے اشتہارات کی بندش کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کیا۔ محمد صلاح الدین نے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کیا۔ بہت سے صحافیوں پر سنگین الزامات میں مقدمات درج ہوئے۔ بہت سوں نے جیلیں بھگتیں لیکن آزادی صحافت کا پرچم بلند رکھنے کی جدوجہد میںخوف نہیں آنے دیا۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور مکمل آزادی صحافت کا سورج طلوع ہونے تک یہ پرعزم سلسلہ جاری رہے گا۔
یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ جو سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے اسے آزادی صحافت بہت عزیز ہوتی ہے لیکن جوں ہی وہ اقتدار میں آتی ہے اسے آزادی صحافت زہر لگنے لگتی ہے اورصحافی ملک دشمن نظر آنے لگتے ہیں۔ کسی اور معاملے میں ہوں یا نہ ہوں اس معاملے میں پاکستان اور بھارت ایک صفحہ پر نظر آنے کی بات کی جا رہی ہے۔
آزادی اظہار کے حوالے سے حکمرانوں کے طرز عمل کی ایک جھلک ماضی کے یوگو سلاویہ کے سربراہ خروشیف کی بات یا د آگئی ۔ پارٹی کے اجلاس میں اس نے کہا مکمل آزادی ہے حکومت کی غلطیوں اور کمزوریوں کے بارے میں کھل کر اظہار کیا جائے ۔ ایک شریک اجلاس کھڑا ہوا تو اس کے لب چلانے سے پہلے خروشیف نے ڈانتے ہوئے کہا ’تم بیٹھ جاؤ‘ پھر حاضرین کی جانب دیکھا اور کہا سب لوگوں کی خاموشی اس حقیقت کا ثبوت ہے ملک میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ بیشتر حکمرانوں کے نزدیک ایسی ہی اظہار رائے کی آزادی پسندیدہ بلکہ پسندیدہ ترین ہے۔