پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل (پی اے آر سی) ایک خود مختار ادارہ ہے جو کہ منسٹری برائے تحفظ خوراک و تحقیقات کے زیرِ انتظام کام کر رہا ہے۔ یہ ادارہ1981 صدارتی آرڈیننس کے تحت قائم کیا گیادستوری ادارہ ہے جس کے قواعد و ضوابط ِ کار 1984 میں اسٹیبلشمنٹ اور فنانس ڈویڑن کی کلیئرنس کے بعد حکومت پاکستان کے منظور شْدہ ہیں جس کی منظوری بھی حکومت پاکستان کے سرکاری جریدہ(گزٹ) میں شائع شْدہ ہے۔پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے سائنسدان اور متعلقہ سائنٹفک ملازمین مقابلے کے امتحان کے بعد بھرتی کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر سائنسدان پی ایچ ڈی اور بہترین ہنر رکھتے ہیں جنہوں نے بہت سے تحقیقاتی منصوبوں سے ملک میں زرعی تحقیق کا ایک مربْوط نظام قائم کیا ہیجو سالہاسال سے ملک میں زرعی تحقیق میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بے شْمار اعلی تجربہ گاہیں اور اعلی تعلیم یافتہ افرادی قوت پیدا کی جنہوں نے سالہاسال کی کاوشوں کے بعد زیادہ پیداوار والی فصلوں کی اقسام دریافت کیں۔ پولٹری کی ویکسین اور بیماریوں کی تشخیص کا نضام وضح کیا۔ مچھلیاں اور شہد کی مکھیاں پالنے کی ترویج دی۔ سستی زرعی مشینیں تیار کیں اور پانی کی بچت والے کاشت کے طریقے وضح کیے۔ زیتون ،چائے، سٹرابیری ، کیوی فرْوٹ ، اور کئی دْوسرے پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کو کامیابی سے پروان چڑھایا۔پرائم منسٹر انسپکشن کمیشن نے حال ہی میں پی اے آر سی کی کارکردگی کو جانچا اور اپنی تحقیق کرنے کے بعد یہ مانا کہ ادارے نے پچھلے دس سال میں تین ٹریلین روپے کا فائدہ ملک و قوم کو دیا جبکہ سرکار نے ادارے پر اب تک 30 ارب روپے خرچ کئے۔اس ادارے کے ملازمین کی تنخواہوں ، پنشن اور تحقیق کے لیے درکار فنڈز حکومت پاکستان گرانٹ کی شکل میں ادا کرتی ہے۔ اس کے ملازمین کے پنشن اور ریٹائرمنٹ کے بینیفٹ جائز اور قانْونی حقوق ہیں جو کہ ان کو شروع دن سے حاصل ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملازمین اپنی ریٹائرمنٹ کے عمرکو پہنچ گئے ہیں اور 1500 سے زائد مائع ناز سائنسدان اور متعلقہ ملازمین بہترین کارکردگی دکھانے کے بعد ریٹائر ہو گئے ہیں اور اپنی پنشن اور جْملہ فوائد ایک عرصہ سے حاصل کر رہے ہیں۔ جبکہ پچھلے ڈھائی سال سے زائد عرصہ سے کم بجٹ منظور ہونے کی وجہ سے پنشن اور کمیوٹیشن کے واجبات ادا کرنے کے لیے ادارے کا خسارہ بڑھ رہا ہے اور 260 سے زائد سائنسدانوں کو پنشن کے واجبات ادا نہیں ہو سکے۔ سابق ادوار میں ادارے کو سپلیمنٹری گرانٹ کی مددسے یہ واجبات ادا کیے جاتے رہے جو ہمیشہ ڈیمانڈ سے کم رقم ادارے کو ادا کی جاتی رہی۔اس بجٹ کی ناانصافی کو پورا کرنے اور عرصہ دراز سے پینڈنگ ادائیگیوں کے لیے درکار رقم بڑھکر 806.585 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ جس کے لیے فائل منسٹری برائے تحفظِ خوراک و تحقیق سے منظوری کے بعد فنانس منسٹری میں منظوری کے لیے جا چکی ہے۔یہ فائل برائے ٹیکنیکل سپلیمنٹری گرانٹ مبلغ 806.585 ملین برائے سال 2020-21 منظوری کے لیے جوائنٹ سیکرٹری ایکسپینڈیچر صاحبہ کے دفتر میں 22ماہ سے زائد سے پڑی ہے جو بڑی کو ششوں کے باوجود اپنے بڑے افسران سے منظوری نہ لے سکی ہیں۔اس ڈھائی سال سے زائد عرصہ میں ڈیڑھ درجن سے زائد ریٹائرڈ سائنسدان اور ملازمین انتقال کر چْکے ہیں۔ ان کی بیوگان ، یتیم بچے اور دیگر بْوڑھے اور بیمار ملازمین اور سائنسدان اپنے خاندانوں کی کفالت اور ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے پنشن /کمیوٹیشن کے واجبات کے لیے ترس رہے ہیں۔ اس لیے منسٹری آف فنانس اور دیگر حکومتی ارباب اور وفاقی حکومت سے درد مندانہ درخواست ہے کہ وہ اس مسئلہ کو انسانی ہمدردی کو مدِ نظر رکھ کر جلد سے جلد حل کر کے دْعائیں لیں۔
( الحاج محمد سعید چشتی تحریک الفلاح (03005369399
زرعی سائنس دانوں کو سپلیمنٹری گرانٹ دی جانی چاہیے
Feb 11, 2021