اسلام آ باد ( نوائے وقت رپورٹ ) پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ جنوری 2021کے آخر تک پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں تقریبا 35 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جس سے 5.57 ملین گانٹھوں کی کمی واقع ہوئی ہے جو 30سالوں میں سب سے کم ہے۔ بدھ کو گوادر پرو کے مطابق اگرچہ کپاس کی حالت زار کے پیچھے متعدد وجوہات کی نشاندہی کی جاسکتی ہے لیکن اس کو وآپس لانے کے لئے بھرپور کوششیں جاری ہیں۔کپاس کی شرح نمو میں کمی بنیادی طور پر کیڑوں اور خشک سالی ، بیجوں کی کمی اور کاشت کے رقبے میں کمی کی وجہ سے ہے۔کپاس کے کاشت کار ظفر محمود خان نے کہا ہے کہ بنیادی مسئلہ کیڑوں کی بیماری اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے"اس سال ، سفید مکھی نے کپاس پر سنگین اثرات مرتب کیے جو گلابی سنڈی کی نسبت زیادہ پر خطر تھے۔فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جلال عارف کے مطابق گلابی سنڈی اور سفید مکھی کی تباہی چالیس لاکھ گانٹھوں کی باعث بنی ہے۔ ستمبر کے نازک مہینے کے دوران زیادہ درجہ حرارت نے پھل پھولنے والی شاخوں کی نشوونما کو روکا۔ گرمی برداشت کرنے والی کپاس کی اقسام گلوبل وارمنگ کے خلاف لڑنے کے لئے درکار ہے۔2001 میں کیڑے سے بچنے والی ٹرانسجینک بی ٹی کاٹن کے تعارف کے بعد بھی عملی طور پر کوئی کیڑوں پر قابو نہیں پایا گیا ، مصدقہ بیج کی ناکافی دستیابی کے خطرے کے تحت ، حالیہ برسوں میں کپاس کی افزائش کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ، جس سے زیادہ کاشت کاروں کو مکئی ، چاول اور گنے کی دیگر قابل اجزا فصلیں کاشت کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔جس کے نتیجے میں 2020 -21 میں کپاس کے رقبے میں 12 فیصد کمی متوقع ہے۔ اس سال پاکستان کی کپاس کی پیداوار 4.5 ملین گانٹھوں سے تجاوز نہیں کرے گی۔سینٹر آف ایکسی لینس ان ما لیکولر بیالوجی (سی ای ایم بی) لاہور میں پنجاب یونیورسٹی نے تجارتی استعمال کے لئے ڈبل اور ٹرپل جین بی ٹی کاٹن کی منظوری حاصل کرلی ہے۔ترمیم شدہ سی ایل سی وی ( پتا مروڑ وائرس ) کے خلاف مزا حمت والی قسم بھی کاشتکاروں کو دستیاب ہوگی،۔ کپاس کے کاشت کار محمد نسیم خان نے 2020 میں نئے بیجوں کی مدد سے کیڑوں سے پاک اپنا بیج تیا کیا ہے۔ جوبیج بویا ہے اس کی 4 سے 5 اقسام میں سے بہترین کا انتخاب کرکے اپنے اگلے سال کے لئے تیار کروں گا۔میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے کپاس کے کاشتکاروں کو سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے